ہوم << امیج - حمیرہ خاتون

امیج - حمیرہ خاتون

”ایکسیوزمی، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ ماس ڈیپارٹمنٹ کس طرف ہے؟“
شیریں آواز پر اسماء نے سر اٹھا کر دیکھا۔ لانگ پرنٹڈ شرٹ کے ساتھ بلیک ٹرائوزر پہنے وہ سروقد لڑکی اسٹیپ کٹنگ سنہری بالوں کے ساتھ کندھوں پر دوپٹہ پھیلائے سن گلاسز آنکھوں پر لگائے سب سے منفرد نظر آ رہی تھی۔ راستہ پوچھ کر وہ آگے بڑھ گئی، اس کی چال میں عجیب بےنیازی اور وقار تھا۔ اسماء اپنی جگہ بیٹھی دور تک اسے جاتا دیکھتی رہی۔
پتہ نہیں اس حلیے میں لوگ مادرعلمی کیسے چلے آتے ہیں۔ اس کی ذہن کے دائرے میں اس کی منفی سوچ نے ایک پتھر پھینکا۔ وہ خود ایک باپردہ لڑکی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بہت اچھا سمجھتی تھی۔ ذہین تو وہ بچپن سے تھی۔ ہائی مارکس، ٹیچرز کی حوصلہ افزائی اور دوستوں کی تعریفوں نے اس میں ایک احساس برتری پیدا کر دیا تھا۔گھر کا ماحول کچھ سخت سا تھا۔ وہ کالج سے ہی حجاب لیتی تھی۔ اس نے حجاب کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا۔ یونیورسٹی میں حجاب میں ہوتے ہوئے بھی وہ بہت اعتماد کے ساتھ اپنے اساتذہ سے گفتگو کیا کرتی تھی مگر لڑکوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وہ نروس ہو جایا کرتی تھی۔ شاید اس کے گھر کے ماحول کا اثر تھا۔ وہاں لڑکوں کے ساتھ زیادہ فری ہونا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
× × × × × × × × × ×
دوسرے دن وہ اپنی سیٹ پر بیٹھی عائشہ کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ اس کی برابر والی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔
”السلام علیکم۔ مجھے سیمی شاہ کہتے ہیں.“ اس نے اپنا نازک سا سفید ہاتھ آگے بڑھایا جس کی ایک انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کا سفید نگینہ جگمگ کر رہا تھا۔ پتہ نہیں انگوٹھی زیادہ خوبصورت تھی یا اس کا ہاتھ، وہ فیصلہ نہ کر پائی۔
”ہیلو“ اس نے ہاتھ ہلایا۔
”اوہ سوری۔“ وہ اپنی محویت پر شرمندہ ہو گئی۔
”وعلیکم السلام۔“ اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔”نائس ٹومیٹ یو، مجھے اسماء کہتے ہیں۔“
”اوہ گڈ، ویری بیوٹی فل نیم، آئی لائکڈ اٹ۔“ اس نے سن گلاسز اتار کر سر پر لگائے۔ اس کی آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں۔ وہ اس کی بڑی بڑی سیاہ چمکدار گہری آنکھیں دیکھ رہی تھی جن پر سیاہ آئی لائنر غضب ڈھا رہا تھا۔ اس کی پلکیں لمبی اور خم دار تھیں جن کا عکس اس کے گالوں پر پڑ کر قیامت ڈھاتا تھا۔ اف کتنے لوگ ان آنکھوں پر قتل ہوئے ہوں گے۔ اس کے شاعرانہ دل میں خیال آیا۔
”اسماء، میرے کل کے لیکچر کے کچھ پوانٹس مس ہو گئے تھے۔ کیا آپ دے سکتی ہیں؟“ اس نے اپنی نوٹ بک کھولتے ہوئے درخواست کی۔
”شور۔“ اسٹڈیز کے معاملے میں اسماء کافی ہیلپ فل تھی۔ اور پھر لیکچر پر ڈسکشن اسٹارٹ ہو گئی۔ جن پوانٹس پر وہ بات کر رہی تھی اور جو اعتراضات وہ تھیوری پر کر رہی تھی وہ کافی جاندار تھے۔ اس رخ پر اسماء نے سوچا بھی نہ تھا۔ اور پھر چند ہی دنوں میں اس کی ذہانت کا اندازہ سب کو ہی ہو گیا۔ وہ پابندی سے کلاسز اٹینڈ کرتی۔ لیکچرز پر پوری توجہ دیتی، نوٹ کرتی، سوالات اٹھاتی، اپنی الجھنیں بیان کرتی۔ اس طرح کلاس میں ڈسکشن کا ماحول بن جایا کرتا۔ لڑکے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ سوالات سے اسے زچ کرتے مگر وہ بہت آرام سے اپنا پوائنٹ کلیئر کرتی۔ اس کی وجہ سے کلاس کی حاضری بڑھ گئی اور اسٹڈیز میں مزہ آنے لگا۔ خود اسماء کو اس کی ذہانت کبھی بہت اٹریکٹ کرتی اور کبھی اسے جیلسی فیل ہونے لگتی۔ لڑکوں کی اس پر توجہ دیکھ کر اور اس کی مقبولیت دیکھ کر وہ اس کے بارے میں کوئی مثبت سوچ قائم نہیں کر پاتی تھی۔
اس کا حلیہ وہی پہلے دن والا تھا۔ دوپٹہ کندھوں پر پھیلا ہوتا، گلاسز کبھی آنکھوں پر اور کبھی بالوں پر ہوتے۔ اسٹیپس میں کٹے سنہری بال کندھوں اور پشت پر لہراتے رہتے۔ اس کے بال بہت گھنے، چمکدار اور خوبصورت تھے۔ جب وہ ایک ادا سے بالوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں پیچھے کرتی تو اس کی انگوٹھی کا سفید نگینہ دیر تک چمک پیدا کرتا رہتا۔
× × × × × × × × × ×
”ہیلو سیمی، کیا حال ہیں؟“ ناصر پاس آتے ہوئے بولا۔
”مجھے خوشی ہوگی، اگر آپ مجھے مس شاہ کے نام سے پکاریں۔“ سیمی نے شائستگی سے کہا۔
”اوہ سوری مس شاہ۔“ ناصر کلاس کا ذہین اسٹودنٹ تھا۔ وہ اس کی بات سمجھ چکا تھا۔
اور اس دن کے بعد یہ بات سب میں ہی مشہور ہو گئی کہ سیمی کو پسند نہیں کہ لڑکے اسے بےتکلفی سے اس کے نام سے پکاریں بلکہ مس کہہ کر اسے عزت سے پکاریں۔ اسماء کی منفی سوچ کے دائرے میں پہلا پتھر پڑا۔
× × × × × × × × × ×
”یار ، آج تو بہت تھک گئی۔“ اسماء، عائشہ کا انتطار کر رہی تھی کہ وہ پاس آکر بیٹھ گئی۔
”مسلسل کلاسزسے سر میں درد ہو گیا۔“ وہ اپنی سفید انگلیوں سے کنپٹی دباتے ہوئے بولی۔
”مس شاہ، چائے لائوں آپ کے لیے؟“ قریب کھڑے فراز نے مسکرا کر پیشکش کی۔
”ہاں۔ ضرور، نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ اس نے آفر قبول کرنے میں دیر نہ لگائی۔ اسماء کی منفی سوچ کا دائرہ ایک بار پھر پھیل گیا۔
چائے کے ساتھ ہی سموسے بھی تھے۔ چائے پیتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تھینکس مسٹر فراز، یہ آپ کی چائے اور سموسے کے پیسے۔“ اس نے ٹیبل پر پیسے رکھتے ہوئے کہا۔
”رہنے دیں۔ مس شاہ۔ یہ میری طرف سے ہے۔“ فراز کا لہجہ مسکراتا ہوا تھا۔
”سوری مسٹر فراز، ہم میں ایسا کوئی رشتہ نہیں کہ آپ میری چائے کے پیسے ادا کریں۔“ اس نے اپنا سامان اٹھاتے ہوئے کہا۔
”کم آن مس شاہ۔ وی آر کلاس فیلوز۔“ اس نے دلیل دی۔
”کلاس فیلوز فار اسٹڈیز، نتھنگ ایلس۔“ وہ سن گلاسز آنکھوں پر لگاتی آگے بڑھ گئی۔
”یار، بڑی اصول پرست لڑکی ہے۔“ فراز نے پیسے اٹھاتے ہوئے کہا۔
اسماء کے منفی سوچ کے دائرے میں ایک اور زوردار پتھر پڑا۔ چھینٹے بہت دور تک گئے۔
× × × × × × × × × ×
”یہ میرے بھائی کی شادی کا کارڈ ہے، مس شاہ، ضرور آئیے گا۔“ سنہری شادی کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے یہ بلال تھا۔
”سوری مسٹر بلال۔ میں نہیں آسکتی۔“ اس نے انکار کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔
”مگر کیوں؟ میں نے سب کو انوائٹ کیا ہے۔ گرلز کے لیے پک اینڈ ڈراپ سروس ہے۔“ بلال نے وضاحت کی۔
”بہت شکریہ۔ مگر میں کلاس فیلوز سے کلاس کی حد تک ہی تعلقات رکھنے کی قائل ہوں۔ سوری فار ڈیٹ، بائی دا وے، بیسٹ وشز فار یور برادر۔“ وہ بیگ کندھے پر ڈالتی آگے بڑھ گئی۔
اسماء کے منفی سوچ کے دائرے میں ایک اور زوردار پتھر پڑا۔ چھینٹوں سے وہ پوری بھیگ گئی۔
× × × × × × × × × ×
”مس شاہ، سر درانی نے کہا تھا کہ آپ کلاس کے بعد ان کے روم میں آجائیے گا۔“ علی سر کا میسیج دے کر چلتا بنا۔
اسماء لائبریری سے بکس اشو کروا کر نکل رہی تھی کہ سیمی سے ٹکرائو ہو گیا۔
”مجھے بھی بکس لینی تھی۔ تم نے کون سی لی ہیں؟ دکھائو۔“ دونوں کتابیں دیکھتے دیکھتے ساتھ چلنے لگیں۔ کلاسز آف ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ زیادہ لوگ جا چکے تھے۔
”ارے، مجھے سر درانی نے بلوایا تھا۔میں تو بھول ہی گئی۔“ سیمی نے ایک دم ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”یار ایک منٹ، ذرا میرے ساتھ چلنا اسماء۔“ اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مگر میں کیوں ۔ تمھیں بلوایا ہے، تم جائو۔“ اسماء نے جواب دیا۔
”بس، تھوڑی دیر۔ چلو نا یار۔“ اس نے اس کا ہاتھے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔
”اچھا، اچھا چلو۔“ اسماء کو اتنے اصرار پر انکار کرنا مناسب نہ لگا۔
سر درانی اپنے روم میں اکیلے تھے۔
”سر، آپ نے بلوایا تھا۔“ سیمی دروازے پر ہی رک گئی۔
”ہاں ، ہاں، آپ آئیے نا۔“ سر فورا کرسی سے اٹھے۔
”سر، خیریت۔ کام کیا ہے؟“ سیمی نے قدم اندر نہیں بڑھائے۔
”کچھ ڈسکس کرنا تھا، آپ اندر تو آئیے بیٹا، ایک کپ چائے ہو جائے، پھر بات کرتے ہیں۔“
”سوری سر، اس وقت تو ٹائم اوور ہو چکا ہے۔ ہمیں بھی دیر ہو رہی ہے۔ کل کلاس کے بعد وہیں ڈسکس کر لیں گے۔“ وہ اسماء کا ہاتھ تھامے دروازے سے ہی پلٹ گئی۔
”تم اندر کیوں نہیں گئی، سر اتنا بلا رہے تھے۔“ اسماء نے پھر پوچھا۔
”کیونکہ سر اکیلے تھے اس لیے ویری سمپل۔“ اس کا لہجہ بہت سادہ تھا۔
”تو؟“ اسماء نے حیرت سے پوچھا۔
”میں اکیلے آدمی کے پاس اس کے الگ روم میں کیسے جا سکتی تھی؟“ اس کا انداز وہی لاپرواہی والا تھا مگر اب اسماء کو لگا کہ وہ لاپرواہ نہیں بلکہ بہت گہری ہے۔ اسماء کی منفی سوچ کے دائرہ اتنا تڑخ چکا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔
”مگر سر درانی تو تم کو بیٹا کہہ رہے تھے۔“ اسماء نے اسے یاد دلایا۔
”کہنے سے میں کوئی ان کی بیٹی نہیں ہو جاتی۔“ وہ زندگی کی کتاب کا ایک سبق بتا رہی تھی۔
”تم میں اتنی حیا ہے“ اسماء حیران تھی۔”تم تو حجاب بھی نہیں لیتی ہو۔“ اسماء نے وہ بات کر دی جو اسے ہمیشہ پریشان کیا کرتی تھی۔
”ضروری نہیں کہ جو حجاب نہ لے تو اس میں حیا بھی نہ ہو۔“ اس نے بہت گہری اور شکوہ کناں نظروں سے اس کو دیکھا۔ اس کا شکوہ اسماء کو اندر تک شرمندہ کر گیا۔ اسے اب اندازہ ہوا کہ حجاب صرف چہرہ کا ہی نہیں بلکہ سوچ اور عمل کا بھی ہوتا ہے۔ نہ جانے سیمی جیسی ماڈرن نظرآنے والی کتنی لڑکیاں اپنی سوچ میں کتنی باحیا اور کردار میں کتنی مضبوط ہوتی ہیں۔ اسماء کی منفی سوچ کے دائرے میں پتھر لگاتار برس رہے تھے۔ اس نے سیمی کا جو غلط امیج اپنے ذہن میں بنایا ہوا تھا، اس پر آج آخری ضرب پڑ گئی تھی۔ وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔
”سوری سیمی، میں نے ہمیشہ تمھیں غلط سمجھا، اب مجھے اندازہ ہوا کہ حجاب لینا اور نہ لینا کسی کی اپنی مرضی ہو سکتی ہے مگر حیا تو اس میں بھی ہو سکتی ہے۔ تمھارے مضبوط کردار نے میری منفی سوچ کو تبدیل کر دیا۔ سوری۔“ اسماء نے سیمی کا ہاتھ تھام کر کہا۔
”اٹس اوکے۔ آئم ہیپی کہ تمھاری سوچ چینج ہو گئی۔“ سیمی نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
ختم شد

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment