ہوم << قربانی سے پہلے اہلِ پنجاب کی قربانی؟ - رضوان الرحمن رضی

قربانی سے پہلے اہلِ پنجاب کی قربانی؟ - رضوان الرحمن رضی

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سائیں لاہور کے دورے پر ہیں ۔ وہ لاہور میں اس اجلاس میں شرکت کرنے تشریف لائے ہیں جو قومی مالیاتی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے بلایا گیا ہے، اس حوالے ایک اور اجلاس پندرہ ستمبر کو ہوگا اور پھر حتمی اجلاس اس ماہ کے آخر میں اسلام آباد میں ہوگا۔ اس ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے تمام صوبوں کی مالیاتی ٹیموں کے ذمے مختلف کام لگائے گئے تھے، سائیں مراد علی شاہ یہ دیکھنے تشریف لائے ہیں کہ پنجاب نے اپنے حصے کا کام کیا ہے کہ نہیں؟
یادش بخیر! گذشتہ مالیاتی ایوارڈ کا حتمی اجلاس اسی شہرِ لاہور میں ہی ہوا تھا۔ اُس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں تھے تاہم ان کے برادرِ خورد پنجاب کی ’خدمت ‘ ضرورکر رہے تھے اور یوں وفاقی سطح کے اکثر سرکاری اجلاسوں میں ’’بڑے بھائی جان‘‘ بھی بغیر کسی قانونی اور آئینی جواز کے نہ صرف شریک ہوجایا کرتے تھے بلکہ اکثر کی صدارت بھی فرمایا کرتے تھے۔ اُس وقت کراچی کے زیر تسلط الیکٹرانک میڈیا نے یہ تاثر پوری طرح بنا دیا تھا کہ صرف اور صرف پنجاب کو قربانی دینی چاہیے۔
نہ جانے کیوں ہم جیسے کج فہموں کو اُس وقت یہ خوش فہمی تھی کہ جب پنجاب کی قیادت آبادی کے حساب سے اپنے صوبے کے وفاقی محاصل میں سے ملنے والے 56.4 فی صد حصے کی قربانی دے گی تو بدلے میں کالاباغ ڈیم اور اس جیسے دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر باقی صوبوں کی بلیک میلنگ کو بھی ختم کروالے گی۔ لیکن ہم سمیت پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کی امیدیں اُس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب میاں محمد نواز شریف نے صرف اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر قانونی قدغن کے خاتمے کے عوض پنجاب کے مالیاتی مفاد کا سودا کرڈالا۔ انہوں نے باقی صوبوں کے لیے مالیاتی قربانی تو دی لیکن محض اس لیے کہ ان کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے اوپر جنرل پرویز مشرف صاحب کو آئینی ’’پخ‘‘ لگا گئے تھے اس کو ہٹا دیا جائے۔ کیوں کہ باقی صوبوں کے نمائندوں کو بڑے میاں صاحب کی اس ’مجبوری‘ کا پتہ تھا اس لیے انہوں نے بھی اس کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔
اس لیے خدشہ تو یہی ہے کہ میاں صاحب کے سمدھی ، جناب ’حافظ ‘ محمد اسحاق ڈار، ماضی کی طرح اس دفعہ بھی پنجاب کے لوگوں کے مفادات کا ’ختم‘ پڑھ ڈالیں گے کیوں کہ اس مرتبہ بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے میاں صاحبان پر حزبِ اختلاف کا شدید دبائو ہے ۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اس دباو کو ہٹوانے کے عوض اپنے صوبوں کے عوام کے لیے مزید وسائل کا تقاضا کر سکتی ہے اور چوں کہ میاں صاحب نے پلے سے تھوڑی دینا ہے، اس لیے ’مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق ، وہ یہ بھی دے دیں گے۔ موصوف نے گذشتہ مرتبہ پنجاب کا حصہ 56.4 فی صد سے کم کر کے 51 فیصد کے لگ بھگ کرنا قبول کر لیا تھا، اب دیکھیں معاملہ اس سے آگے اور کہاں تک جاتا ہے کیوں کہ اس قربانی کے باوجود دوسرے صوبوں کی قیادت کی پنجاب سے شکوے شکایتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اور اب پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد تو مزید بڑھ گئے ہیں۔
ویسے اہلِ پنجاب کا اپنی قیادت سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ پنجاب کے حصے کے یہ فنڈز دوسرے صوبوں کو دینے سے (اور میاں صاحب کے بقول یہ قربانی دینے سے) گذشتہ پانچ سالوں میں دوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور اندرونِ سندھ میں غربت میں کیا کمی آئی؟ ان فنڈز سے عوامی فلاح و بہبود کے کتنے منصوبے بنے؟ اور وہاں پر لوگوں کے معیارِ ہائے زندگی میں کس قدر کمی ہوئی؟ یا پھر یہ رقوم بھی کسی ’صوبائی افسر ‘ کے لاکر میں جا کر براجمان ہو گئیں اور یاپھر لانچوں کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کر دی گئیں۔
میاں نواز شریف صاحب کے اس ’’عقل مندانہ ‘‘ فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب کے پاس وسائل کی کمی کے باعث غربی پنجاب میں غربت کے سب سے زیادہ مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت کے اپنے کئے گئے تازہ ترین غربت کے سروے کے مطابق غریبوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے اور اس کی اکثریت غربی پنجاب میں رہتی ہے۔ غربت بھی سب سے زیادہ پنجاب میں اور وسائل کر ہڑپ کر جانے کا طعنہ بھی اہلِ پنجاب کو۔ دوسری طرف بھاری شرحِ سود پر قرض لے کر نام نہاد میٹرو ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبوں کا اصل زر، سود سمیت، پنجاب کی آئندہ نسلیں ادا کریں گی۔ یعنی میاں صاحب کی اعلیٰ قیادت کی بدولت پنجابیوں کو سو جوتے بھی کھانا پڑ رہے ہیں اور سو پیاز بھی کھانا پڑیں گے۔ کم از کم اگلے بیس سال تک!
ویسے وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ اپنے مشیر قانون کو ،کہ اگر اس مشیر موصوف کو سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر علمیت (کے نام پر جہالت ) جھاڑنے سے کبھی فرصت ملے ، تو ان سے پوچھ کر قوم کو بتائیں کہ نئی مردم شماری کے بغیر کیا یہ قومی مالیاتی ایوارڈ آئینی بھی ہے؟ کیوں کہ ہمارے حلقہ احباب میں شامل قانونی ماہرین کی رائے میں اگرچہ ایسی مشق غیر آئینی ہوگی تاہم صدر خصوصی اختیارات استعمال کر کے صرف ایک مرتبہ ایسا کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جو کہ زرداری صاحب گذشتہ مالیاتی ایوارڈ کے وقت دے چکے ہیں ۔
گذشتہ مرتبہ میاں صاحب نے اس محاذ پر بھی اس قوم کے ساتھ ’کارگل‘ کردیاتھا اور یہ تک بھی مان لیا تھا کہ ٹیکس دینے والی کوئی اہمیت یا اوقات نہیں ہوتی، بلکہ اصل اہمیت اُس کی ہوتی ہے جو ٹیکس اکٹھا کرتا ہے۔ ٹیکس سارا پاکستان دے لیکن اس پر حق صرف سندھ کا ہو گا کیوں کہ ایف بی آر کی بدعنوان اور نا اہل افسر شاہی کی وجہ سے پورے ملک سے تو ٹیکس اکٹھا ہو نہیں سکتا اس لیے بندرگاہ پر وصول کیا جانا بہت ہی آسان ہوتاہے۔ اس ناطے تو اس این ایف سی میں چئیرمین ایف بی آر کے لیے ایک ارب روپے ماہانہ سے زائد کی تنخواہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی جائے کیوں کہ اگر دیکھا جائے کہ اگر دوسروں کا دیا گیا ٹیکس جمع کرنا ہی معیار ہے تو سارا ٹیکس تو ایف بی آر اکٹھا کرتا ہے اور اس حوالے سے جمع کئے گئے ٹیکس پر سب سے پہلا اور زیادہ حق تو چیئرمین ایف بی آر کا بنتا ہے ناں؟
ہر معاملے میں بھارت سے مقابلہ کرنے والے اس حوالے سے بھارت کی مثال کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے؟ حیرت ہے۔

Comments

Click here to post a comment