ہوم << عدلیہ کی شریعت، جنابِ والا! عمران احسن خان نیازی

عدلیہ کی شریعت، جنابِ والا! عمران احسن خان نیازی

ان دنوں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کون سی شریعت پاکستان میں نافذ کی جائے گی؟ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بہت سے فرقوں اور شریعت کی بہت سی تعبیرات کی موجودگی میں کس کی تعبیر نافذ کی جائے گی، بالخصوص اب جبکہ بعض لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے ہتھیار بھی اٹھالیے ہیں؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے پاکستان میں”عدلیہ کی شریعت“ نافذ کی جائے گی۔ اس بات کی مختصر توضیح ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
دستور کی دفعہ 227 ( ا) دو ذمہ داریاں عائد کرتی ہے :
اولاً یہ کہ ”تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور احکام ِاسلام سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔“
ثانیاً یہ کہ ”ان احکام سے متصادم قانون سازی نہیں کی جائے گی۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
پہلی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے دستوری تقاضوں کے مطابق اپنی رپورٹیں تیار کی ہیں۔ نیز جن بعض قوانین کی جزئیات احکام ِاسلام سے متصادم نظر آتی ہیں انھیں کالعدم قرار دینے کے لیے وقتاً فوقتاً وفاقی شرعی عدالت میں بھی کا رخ کیا جاتا ہے۔
نئی یا مجوزہ قانون سازی کے متعلق دوسری دستوری ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دستور کی دفعہ 229 میں جو طریق کار طے کیا گیا ہے اس کی رو سے مجوزہ قانون کے مسودے کی احکام ِاسلام سے ہم آہنگ بنانے کے لیے کونسل کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم اگر مفادِ عامہ کا تقاضا ہو تو کونسل کا جواب موصول ہونے سے قبل بھی پارلیمنٹ مجوزہ قانون کا مسودہ منظور کرسکتی ہے۔ (دفعہ 229 (3 )) وفاقی یا صوبائی مجلس ہاے قانون ساز اس بات کی پابند نہیں ہیں کہ وہ کسی مجوزہ قانون کا مسودہ لازماً کونسل کو بھیجیں، اور بالعموم وہ ایسا کرتی بھی نہیں ہیں۔ مقننہ عام طور پر قانون سازی کے امور کونسل کی مشاورت کے بغیر ہی انجام دیتی ہے۔ اس وقت ہمارے لیے موضوع ِ بحث یہی قوانین ہیں جو کونسل کی مشاورت کے بغیر بنائے جاتے ہیں۔
چونکہ اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا اس لیے اس دستوری امر کی پابندی کرتے ہوئے مقننہ قانون ایسا بناتی ہے جو اسلام سے ہم آہنگ ہو۔ پس مفروضہ یہ ہے کہ مقننہ کے بنائے ہوئے تمام قوانین اسلامی ہیں، خواہ انھیں وضع کرنے کے دوران میں کونسل سے مشورہ لیا گیا ہو یا نہیں۔ پس پاکستان میں تمام قوانین اسلامی ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کو غیراسلامی کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقننہ دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیراسلامی قوانین وضع کر رہی ہے۔ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی مقننہ کے متعلق یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ پس یہ مفروضہ ماننا پڑے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں موجود تمام عدالتیں اس مفروضے کا ”عدالتی نوٹس“ لیں گی کہ مقننہ کے وضع کردہ تمام قوانین اسلامی ہیں۔
ذرا ترمیم شدہ شکل میں یہ مفروضہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل انگریزوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ کونسل اور شرعی عدالت نے تقریباً ان تمام قوانین کا جائزہ لیا ہے اور ربا جیسے معدودے چند مسائل کے سوا رائج الوقت تقریباً تمام قوانین کو اسلام کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ جن چند قوانین کو غیراسلامی قرار دیا گیا ہے، ان کو بھی بتدریج اسلامی قانون کے سانچے میں ڈھال دیا جائےگا جب ان کے متعلق کونسل کی رپورٹ آجائے گی، یا جب شرعی عدالت ان کے متعلق فیصلہ کرلے گی۔ قوانین کی غالب اکثریت کے متعلق کونسل اور شرعی عدالت، یا بہ الفاظِ دیگر پاکستان کے عوام ، کا مفروضہ یہ ہے کہ یہ اسلامی ہیں۔ پس عدالتیں ان قوانین کے متعلق بھی عدالتی نوٹس لیں گی کہ انھیں اسلامی فرض کرتے ہوئے ان کی تعبیر کی جائے۔
نئی قانون سازی اور پہلے سے رائج قوانین کے متعلق ان دو مفروضوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام قوانین اسلام سے ہم آہنگ کیے جاچکے ہیں۔ مستقبل میں بھی جو قوانین بنائے جائیں گے وہ اسلام سے ہم آہنگ ہوں گے۔ پس قوانین کو اسلامیانے کا عمل تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور ہمارے تمام قوانین اسلامی ہیں۔ یہ حقیقت ہماری عدالتوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ اب اس بات کی توضیح ضروری ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ عدالتیں ان مفروضوں کا اور اس اہم حقیقت کا عدالتی نوٹس لیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس مقصد کے لیے ہم امریکی جج جسٹس کارڈوزو پر انحصار کریں گے جو ہمارے لیے عدالتی طرز عمل کی توضیح کرتے ہیں۔
جسٹس کارڈوزو کہتے ہیں:
”پس ہمارے لیے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ: جج جس قانون کا اظہار اپنے فیصلے کے ذریعے کرتا ہے وہ اسے کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ بعض اوقات یہ مآخذ بالکل واضح ہوتے ہیں؛جیسے مثال کے طور پر کسی جزئیے سے متعلق حکم دستور یا قانون فراہم کردیتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو جج کسی اور چیز کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب متعلقہ حکم معلوم ہوجائے تو اس پر عمل پیرا ہونا ہی اس کا کام ہے۔ دستور قانون پر بالادست ہوتا ہے؛ لیکن قانون اگر دستور سے ہم آہنگ ہو تو جج کے وضع کردہ قانون پر بالادست ہوتا ہے۔ اس مفہوم میں جج کا وضع کردہ قانون مقننہ کے وضع کردہ قانون کی بہ نسبت ثانوی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ ضوابط اور قوانین جج کو غیر ضروری نہیں بنادیتے؛ نہ ہی اس کے کام کو لگا بندھا اور مشینی بنادیتے ہیں؛ بلکہ قانون میں موجود خلاؤں کا پر کرنا ضروری ہوتا ہے ؛ اور اسی طرح اشکالات اور احتمالات کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے۔“
قانون میں جن خلاؤں، اشکالات یا احتمالات کا جسٹس کارڈوزو ذکر کر رہے ہیں وہ عام آدمی کی سوچ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جج کو ہر قانون کی تعبیر کرنی پڑتی ہے اور تمام خلاؤں، اشکالات اور احتمالات کو دور کرکے قانون کو شکل دینا اور معانی پہنانا ہوتا ہے جس کے بعد ہی وہ لوگوں کے مسائل کو منصفانہ اور متوازن حل دیتا ہے۔ یہ خلا، اشکال اور احتمال جن کا ذکر جسٹس کارڈوزو کررہے ہیں، اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ تمام قوانین اب اسلامی ہوچکے ہیں۔ کیا یہ اشکالات دور کرنے میں ہمارے ملک کا قانون ہماری کچھ مدد کرتا ہے؟ یقیناً، کرتا ہے۔ اس مسئلے پر جس قانون کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن جس پر بوجوہ عمل نہیں کیا جارہا ، ”قانون ِ نفاذ ِ شریعت 1991ء“ کی دفعہ 4 میں مذکور ہے۔ اس دفعہ کا متن حسبِ ذیل ہے:
”قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی: اس قانون کے مقصد کے لیے ( الف ) جب کسی قانون کی دو تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو اسلامی اصولوں اور نظریۂ قانون سے ہم آہنگ ہو؛ ( ب ) جب دو یا زائد برابر کی تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو دستور میں مذکور پالیسی کے رہنما اصول اور اسلامی دفعات سے ہم آہنگ ہو۔“
ان دونوں ذیلی دفعات میں لفظ shall آیا ہے، نہ کہ may، اور اسی لیے اس حکم پر عمل لازمی ہے، نہ کہ اختیاری۔ ”اس قانون کے مقصد کے لیے“ سے بالبداہت مراد یہ ہے کہ ”نفاذ ِ شریعت کے مقصد کے لیے، جیسا کہ اس قانون اور دستور کا تقاضا ہے۔“ باقی رہا یہ سوال کہ اس لازمی تعبیر کی شکل عدالتی اصطلاح میں کیا ہوگی، تو اس کا جواب دینا خود عدالتوں پر ہی لازم ہے۔ قانون دان حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس دفعہ کی رو سے لازم ہونے والی تعبیر کے متعلق عدالتوں کے سامنے سوال اٹھائیں۔
اگر اس دفعہ کی روشنی میں قانون کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے تو ملک کا پورا قانون اسلامی عدل اور انصاف کے رنگ میں رنگ جائے گا اور یہ رنگ چار پانچ سال میں واضح طور پر سامنے آجائے گا۔ بعض اوقات عدالتیں شریعت کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ایسا ہر معاملے میں نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ تمام قوانین کی تعبیر شریعت کے مطابق کی جائے۔ اس سے مراد ہر طرح کے قوانین ہیں، جیسے ٹیکس کا قانون، کمپنی کا قانون، معاہدے کا قانون، تلافی کا قانون وغیرہ۔ ہر قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کا مفہوم یہ ہے کہ خلاؤں کو پر اور اشکالات کو دور کرنے کا کام شریعت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اگر یہ قانونی لحاظ سے لازمی کام 1991ء میں شروع کیا جاچکا ہوتا تو آج ہم اس صورت حال سے دوچار نہ ہوتے کہ قانونی نظام کے اسلامی ہونے سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔
آخر میں اس بات کا بھی اضافہ کروں کہ شریعت کے بامعنی نفاذ کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس کےنتیجے میں شریعت کا نفاذ تدریج اور سہولت کے ساتھ ہوجائے گا۔ آج جو لوگ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں انھیں نفاذ کے اسی طریقے پر اصرار کرنا چاہیے۔ ”کس کی شریعت کا نفاذ کیا جائےگا؟“ اس سوال کا جواب عدالتوں کو یہ کہہ کر دینا چاہیے کہ کسی گروہ کی شریعت نہیں، بلکہ شریعت کی دستوری شکل کا نفاذ کیا جائے گا۔
(عمران احسن خان نیازی کی یہ تحریر انگریزی میں تھی. ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

Comments

Click here to post a comment