ہوم << لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

سجاد حیدر فیس بک پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب ان معدودے چند اصحاب میں سے ہیں جنہیں میں اپنے اساتذہ میں شمار کرتا ہوں، اور مجھے یہ فخر ہے کہ میری تلخ نوائیوں اور احمقانہ سوالات کے باوجود فاروقی صاحب نے ہمیشہ شفقت فرمائی. جو لوگ فاروقی صاحب کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فاروقی صاحب کی ہر تحریر کے پیچھے ایک ہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور وہ ہے نوجوان نسل کی بالعموم اور مدارس کے طلبہ کی بالخصوص تربیت. میرے اپنے طلبہ اور عزیز جب مجھ سے کچھ پڑھنے کے بارے مشورہ طلب کرتے ہیں تو دیگر باتوں کے علاوہ میں انہیں فیس بک پر فاروقی صاحب، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عامر خاکوانی، قاری حنیف ڈار، فرنود عالم اور محمد اشفاق کو پڑھنے اور فالوو کرنے کا مشورہ دیتا ہوں.
ہم اپنے اپنے مسالک اور گروہوں کے قید خانوں میں اس طرح مقید ہو چکے ہیں کہ تازہ ہوا کا ہر جھونکا ہمیں باد سموم لگتا ہے. کوئی بھی تنقید جو کوئی باہر والا کرتا ہے، ہمارے لیے تازیانہ بن جاتی ہے اور ہم فورا جوابی وار کے لیے کمر کس لیتے ہیں. لیکن اگر کوئی اپنا ہماری کسی خامی کی نشاندہی کرتا ہے تو بھلے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن یہ تنقید ہمیں سوچنے پر مجبور ضرور کرتی ہے. فاروقی صاحب کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے ان کی تنقید کا سب سے زیادہ نشانہ ان کے اپنے بنتے ہیں. صاحبو یہ کام اتنا آسان نہیں، اگر اندازہ لگانا ہے تو آپ کو وہ سارا سب و دشنام پڑھنا پڑے گا جسے فاروقی صاحب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا. اس سب کے باوجود اگر انہوں نے اپنا مشن نہیں
چھوڑا تو داد دینا پڑے گی ان کی ہمت اور اور استقامت کی.
اساتذہ سے اختلاف کی روایت چونکہ ہمیشہ سے رہی ہے تو اسی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاروقی صاحب کی ایک حالیہ پوسٹ کے ایک پیراگراف کی ایک لائن سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہوں. فاروقی صاحب نے اپنے ایک حالیہ مضمون.... عورت اور مرد کی عزت کا فرق......میں عورت کو کھلونا سمجھنے اور اس کو شکار کرنے کا سارا الزام... لبرل مرد... پر ڈالا ہے. چونکہ بیشتر اصحاب فاروقی صاحب کی وال پر اور پھر دلیل کے فورم پر اس مضمون کو پڑھ چکے ہیں لہذا پورا پیرا گراف نقل کرنے کے بجائے صرف مذکورہ فقرہ نقل کر رہا ہوں.
”یہ فریب انہیں وہی دے رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لیے گھر سے نکلتا ہے. لبرل مرد!“
مزید بحث سے پہلے اگر ہم لبرل ازم کی تعریف پر متفق ہو جائیں تو بات کو آگے بڑھانا آسان ہو گا.
According to Oxford Dictionary: - Willing to respect or accept, behaviour or opinion different from one's own; open a new idea.
ترجمہ: اپنے مروجہ نظریے کے خلاف کسی دوسرے نظریے یا رویے کو قبول کرنے یا اس کے احترام کرنے یا کسی بھی نئے خیال کو قبول کرنے کا نام لبرل ازم ہے.
According to Cambridge Dictionary:- Respecting and allowing many different types of beliefs or behaviour.
مختلف رویوں اور اعتقادات کے احترام کا نام لبرل ازم ہے.
According to another source :- A movement in modern Protestants that emphasized freedom from traditions and authority, the adjustment of religious believes to scientific conceptions, and development of spiritual capacities.
مذکورہ بالا تمام تعریفات (جو میری نظر میں کافی مستند ہیں) سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لبرل ہونے کا مطلب عورتوں کا شکاری ہونا بھی ہے. اب اگر لبرل تحریک کا جائزہ
لیا جائے تو ابتدائی دور میں یہ اس وقت کے جاگیردارانہ معاشرہ، بادشاہت اور مورثیت کے خلاف تھی. آغاز سے ہی مذہب کو چونکہ مذکورہ بالا اداروں کے تحفظ کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور چرچ نے ہمیشہ ان اداروں کا تحفظ کیا جب تک کہ خود چرچ کا مناقشہ شہنشاہیت سے نہیں ہوا. تو لازمی تھا کہ اس تحریک کو بھی چرچ کے ساتھ دوبدو ہونا پڑا. اس تحریک کے آغاز کی وجوہات کو ڈھونڈنے کے لیے ہمیں اس وقت کی تاریخ کے صفحات کو کھنگالنا پڑے گا جو ہمارا موضوع نہیں. جب کلاسیکل لبرل ازم نے ماڈرن لبرل ازم کی شکل اختیار کی تو اس میں معاشرتی اصلاحات بھی شامل ہوتی گئیں، معاشرتی انصاف، مساوات، اور سماجی جکڑبندیوں کے خلاف جدوجہد بھی اس کا حصہ بنتی گئیں. تمام نقاد متفق ہیں کہ جان لاک جو کہ اٹھاروی صدی کا ایک برطانوی مفکر، فزیشن اور سیاسیات کا طالبعلم تھا، کو بجا طور پر ماڈرن لبرل ازم کا بانی کہا جا سکتا ہے. جان لاک کے نظریاتی ساتھیوں نے امریکی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا. والٹیئر اور روسو کے خیالات پر لاک کے نظریات کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے.
لبرل ازم کا اگر سادہ الفاظ میں ترجمہ کیا جائے تو ہر میدان خواہ وہ سیاست کا ہو، سماجیات کا، یا مذہب کا، روایتی بیانیہ سے ہٹ کر سوچنے اور کسی بھی نئے خیال کو قبول یا مسترد کرنے کی آزادی کا نام لبرل ازم ہے. اگر اس کو مزید آسان بنانے کے لیے کیٹیگرائز کیا جائے تو فرد کی اہمیت، خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا یقین، انسانی اقدار اور ذہانت پر اعتماد، اخلاقیات کا احترام اور فطرت انسانی میں ارتقا پذیری کا یقین ہی وہ ستون ہیں جن پر لبرل ازم کی عمارت کھڑی ہے. جان لاک کبھی بھی مذہب اور خدا کا باغی نہیں رہا، بلکہ آج بھی اس کا جسد خاکی ایک چرچ میں دفن ہے.
اوپر دیے گئے تمام مواد میں مجھے کہیں بھی مذہب سے روگردانی نظر نہیں آئی، ہاں! مذہب سے مراد اگر ایک جامد اور غیر ترقی پذیر نظریہ لیا جائے اور اصرار کیا جائے کہ ایک خاص دور میں مذہبی تعلیمات کی جو تعبیرکی گئی ہے، وہی حتمی اور ناقابل ترمیم ہیں تو اس صورت میں لبرل ازم اور مذہب ایک دوسرے کے مقابل نظر آتے ہیں. ایک طرف ہمارا یقین ہے کہ ہمارا دین ہر دور کی ضروریات کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ہم ابھی تک آقا اور غلام کی بحث سے باہر نکلنےکو تیار ہی نہیں.
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم لبرل ازم کو فیمینینزم کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہر معاشرے کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں. مغرب میں ہمیں جو جنسیت نظر آتی ہے وہ لبرل ازم کی پیداوار نہیں بلکہ انڈسٹریلائزیشن کا شاخسانہ ہے. یہ درست ہے کہ مغرب میں ایک وقت پر لبرل ازم کو فرد کی آزادی کے تحفظ کی خاطر اس کی حمایت کرنا پڑی، لیکن یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ نہ تو لبرل ازم کوئی آسمانی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک کہ اس کے تمام اصولوں کو ماننا ہم پر فرض ہے. لیکن اس کی جو چیزیں ہماری معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات کے ساتھ متصادم نہیں، ان کو ماننے میں آخر کیا امر مانع ہے. چلیں اگر اس لفظ سے چڑ ہے تو اسے کوئی اور نام دے دیں. ہمارے ہاں ایک رویہ عام ہے کہ ہم اصطلاحات کو افراد کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں جیسے روشن خیالی کو مشرف صاحب کے ساتھ جوڑ کر اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے. اب اگر کہیں کوئی قسمت کا مارا اس لفظ کا استعمال کر بیٹھتا ہے تو فورا ایک تمسخر آمیز مسکراہٹ سارے حاضرین و قارئین کے ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے. اب اگر ہمیں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اختلاف ہے جو کہ مجھے بھی کئی ایشوز پر ہوتا ہے تو اس کی ضد اور چڑمیں پورے کے پورے تھیسیس کو رد کرنا بنتا نہیں ہے.
یہ کہنا کہ سارا کا سارا لبرل ازم صرف اور صرف جنسی آزادی اور بے راہروی کا نام ہے، میرے خیال میں مبالغہ ہوگا. قصور میں سالہا سال بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے کیا لبرل تھے؟ اگر کسی کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ دہشت گردی اور قتل و غارت نہیں بلکہ یہ تو نتائج ہیں اس عدم برداشت، عدم رواداری، اور مخالف بیانیہ کو سننے سے انکار کرنے کے، جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں. ہر وہ شخص جو میرے دھڑے کا اور میرا ہم مسلک ہے فرشتہ ہے اور ہر وہ شخص جو میرے بتائے گئے اصولوں کا باغی ہے وہ شیطان کا بھی استاد ہے.
مذہبی ایمانیات ہمارے معاشرے کا حسن اور ہمارے لیے ناگزیر ہیں لیکن انسان کو سماجی آسودگی فراہم کرنا بھی معاشرہ کے فرائض میں شامل ہے. اگر اس میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو روایتی فکر سے ہٹ کر سوچنے اور کرنے میں کوئی حرج نہیں.

Comments

Click here to post a comment