ہوم << عید قربان پر اکنامک ایکٹیویٹی - احمد فہیم

عید قربان پر اکنامک ایکٹیویٹی - احمد فہیم

احمد فہیم آج کل چند لبرل خواتین و حضرات یہ ”فرما“ رہے ہیں کہ قربانی نہ دیں، کسی غریب کی مالی امداد کر دیں.
دیکھیے! قربانی سنت ابراہیمی ہے. جو طاقت رکھتا ہو لازمی دے اور مستحقین کی امداد کرے. اسلام کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ ایک دیہاتی اپنے جانور شہر لاتا ہے، ان کو بیچتا ہے، اس سے پہلے اس نے کئی ماہ کئی سال ان کی دیکھ بھال کی ہوتی ہے، محنت کی ہوتی ہے جس کا صلہ وہ ان جانوروں کو بیچ کے پاتا ہے۔ اس کے بعد قربانی کا جانور کٹتا ہے، اس دن قصاب روزی کماتے ہیں، اس کا گوشت غریبوں میں بھی تقسیم ہوتا ہے، ان کی مدد ہو جاتی ہے۔ دوستوں رشتے داروں میں تقسیم ہوتا ہے جس سے بندے کے سماجی تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں کو عطیہ کی جاتی ہیں جو ان کھالوں کو لیدر انڈسٹری کو بیچتے ہیں، لیدر انڈسٹری کو را مٹیریل ملتا ہے، وہاں اس لیدر سے مینوفیکچرنگ ہوتی ہے جس سے مزدوروں اور دیگر سپلائرز کی روٹی روزی چلتی ہے۔
میں ایک طالب علم ہوں لیکن مجھے سامنے کی ایک بات نظر آ رہی ہے کہ قربانی کے پراسیس میں کتنی اکنامک ایکٹیویٹی generate ہو رہی ہے۔ جانور پالنے والے سے لے کر لیدر کی فیکٹری میں کام کرنے والے تک، اور اس سے آگے اس لیدر پروڈکٹ کو بیچنے والے اور اس کو خریدنے والے تک کتنے لوگ ہیں، کتنے سٹیک ہولڈرز ہیں جو فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ویسے بھی آپ کسی غریب کو بغیر محنت کے پیسے دیں گے تو وہ آپ احسان اس پر کریں گے. کوئی پتا نہیں کہ بغیر محنت کے پیسے ملیں تو وہ غریب محنت کرنا ہی چھوڑ دے کیونکہ مستقبل میں بھی وہ پھر امداد ہی مانگے گا، بزنس یا ٹریڈ نہیں مانگے گا۔ میں کبھی سٹریٹ امداد کے حق میں نہیں۔ لوگوں میں ایمپلائمنٹ بڑھنی چاہیے۔ معیشت کا سب سے اہم اصول ہے کہ پیسے کی رولنگ ہونی چاہیے، گردش ہونی چاہیے۔ آپ دیکھ لیں، قربانی کے پراسس میں کتنا پیسا رول ہو رہا ہے، کتنے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔
یہ ایک تجزیہ تھا اس سارے پراسیس کا جو مجھ جیسا کم فہم طالب علم بھی کر سکتا ہے۔ نتیجہ آپ خود نکال سکتے ہیں.

Comments

Click here to post a comment