ہوم << تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور - ہمایوں مجاہد تارڑ

تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور - ہمایوں مجاہد تارڑ

12510238_992882284129170_8202808987580135765_nجس طرح خونی رشتوں کی محبت ایک فطری امر ہے، اسی طرح وطن سے محبت بھی بلاتکلّف ہوا کرتی ہے۔ کہتے ہیں جسے وطن سے محبّت نہ ہو، وہ دنیا کی کسی شے سے محبّت نہیں کر سکتا۔ نیز یہ کہ وطن کی محبّت اپنے گھر کی محبّت سے بھی سوا، اس پر حاوی ہوا کرتی ہے۔ کیوں نہ ہو، کہ آپ فکری اور ثقافتی اعتبار سے اس خطہِ زمیں سے جڑے ہوتے ہیں جہاں آپ پیدا ہوئے۔ جس مٹّی کے سینے پر اٹھتے بیٹھتے، مسائل سے نمٹتےآپ کے شب و روز گزرے ہوں، جس دھرتی کی گود میں پروان چڑھتے آپ نے زندگی کی بیسیوں بہاریں دیکھی ہوں، اور جس کی خزاں رُت کی اداسیوں سے ہم رابطہ رہے ہوں، اس کی چاہ، اس کی لگن کا رگوں میں لہو بن کر سدا رواں رہنا، گاہے ابل ابل پڑنا ایک طبعی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ یوں، وطن سے محبت میں جذبات کا چھلک چھلک سا جانا، اس خاطر مضطرب ہونا اور دگرگوں حالات میں جان تک نثار کرڈالنا فطری باتیں متصوّر ہوتی ہیں۔
حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے جس کا اظہار ہر خطّے کے باسی اپنے اپنے انداز میں کرتے، اور اس میں آئے دن رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا مشہور جملہ ہے: "ہم وطنو، یہ مت کہو کہ آپ کا ملک آپ کو کیا کچھ دے سکتا ہے،، بلکہ یہ کہو کہ آپ اپنے ملک کوکیا کچھ دے سکتے ہو۔"
ذرا یہ لائنیں ملاحظہ ہوں:
تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
عزم میرا ہےقوی، میرے ارادے غیّور
میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
اے مرے پیارے وطن!
میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
میرا سینا تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن
اے میرے پیارے وطن!
رگ و پے میں برق سی دوڑ جاتی ہے۔ ہے نا؟ جیسے آسمانی بجلی اچانک ہمارے آنگن میں گر پڑے۔
حبّ وطن کے تقاضے پورا کرنے کو اگر ایک صنعت کار اچھی صنعت کے ذریعے خدمت بجا لاتا ہے، ایک معلّم بذریعہ عمدہ تدریس، اور ایک فوجی سرحد کی حفاظت میں فرض شناسی کی صورت تو ایک شاعر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے کھرے اورلطیف جذبات کا نذرانہ پیش کرتا ہے، کہ حرف و خیال کو سلیقے سے برتنے کا ہنر ہی وہ سوغات ہے جسے وہ ماں دھرتی کے حضور پیش کر سکتا ہے۔ خلوص کی حدّت لیے ایسا کلام اپنے وطن کے حضور پیش کرنا ہی اس کا 'عمل' کہلائے گا، کہ یہی اس کا کل اثاثہ ہے۔ بلا شبہ ایسا کلام ہزارہا دلوں کا ترجمان ہوتا ہے جو سب لوگوں کا خون برابرگرما دیتا، ان کی کیفیات بدل دیتا ہے۔
کون بھول سکتا ہے سن 65 کی جنگ ستمبر کو۔ اُن ہوش ربا ، روح فرسا ساعتوں میں قوم کا، اور بالخصوص فوجی بھائیوں کا مورال بلند رکھنے میں حمایت علی شاعر کی شاعری اور خلیل احمد کی موسیقی سے سجے’’ساتھیو! مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ ایسے ملّی نغموں نے پاکستانی قوم میں گویا ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کی بنا پر یہ دشمن کے روبرو ایک فولادی قوت بن کر کھڑی ہو گئی۔ یوں، ہمیں ناقابلِ تسخیر بنا ڈالنے میں اس شاعرانہ کلام نے بھی خوب حصّہ ڈالا۔۔ وہ کلام، وہ نغمے آج بھی سامعین اور فوجی بھائیوں کے جذبات کو گرما دیتے ہیں۔
سرفروشی ہے ایماں تمھارا
جراتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کریں سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
چاند تاروں کے اے راز دانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
الحمد للہ، اردو زبان اپنے ہاں حبّ الوطنی پر مبنی شاعری کا قابلِ قدر خزینہ رکھتی ہے۔ہمارے قابلِ صد افتخارشعرا، خواہ وہ بائیں بازو سے ہوں یا دائیں بازو سے، سب اس عظیم دھرتی سے اپنی والہانہ محبتوں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہم ایسی تمام ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور انھیں اس دھرتی کا بیش قیمت سرمایہ خیال کرتے ہیں۔ آخر میں ذوقِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہیں پروین شاکر مرحومہ کے خوبصورت اشعار۔دُعا ہے کہ اللہ کریم انہیں اور ہمارے دیگر شعرا و ادبا کو بھی ایسے شہپارے تخلیق کرنے کے عوض آسانیاں عطافرمائے، اور غریقِ رحمت کرے۔
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویّہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
یہ شعر دیکھیں:
بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے
یعنی (میرے ناقص فہم کے مطابق) بلندیوں کے سفر میں، تحسین و ستائش سے معمور برکھا رُت میں نہال، چاہے جانے کی کیف آگیں ساعتوں میں بھی کہ جب خود کو کچھ خاص سمجھ بیٹھنے، خود فراموش رہ کر عرصہِ حیات کی شیرینی سے گھونٹ گھونٹ حظ اٹھائے چلے جانے کا آپشن موجود تھا، میں down to earth رہا۔ میں نے یہ جانا اور مانا کہ یہ مشتِ خاک تو بس خاک کا پیوند ہونے، مٹی میں مل کر مٹی ہو جانے تک کی ہے۔ رہ جانے والی بات، سدا مہکنے والا پھول تو یہ احساس ہے کہ اپنی ماں دھرتی پر بسنے والی کم نصیب جنتا کا خیال کیا جائے، ان سے قریب رہا جائے، اور حسبِ مقدوراُن کی دلجوئی کی جائے ۔
پروین شاکر کا ہی ایک اور شعر ہے:
اتنی روشن ہے تری صبح کہ دل کہتا ہے
یہ اُجالا تو کسی دیدہِ نمناک سے ہے
آخر میں دعا گو ہوں کہ عامر خاکوانی صاحب کا 'دلیل' کے آغاز کا فیصلہ بارآوار ہو اور یہ اقدام پوری طرح ثمر بار ثابت ہو۔ اس کی فیض رسانی تبھی یقینی اور مستحکم ہوگی جب نئے لکھنے والے ایک ایک شعبہ سنبھال کر تلاش وتحقیق کے حوالے سے محنت کا حق ادا کریں گے اور اپنی تحاریر کو زبان و بیان کی خوبیوں سے آراستہ کرنے کی خاطر سینیئر اور کہنہ مشق لکھاریوں کے چشمہِ خضر سے سیراب ہونے کو انھیں زیادہ تر انہماک سے مطالعہ کرنے کی عادت اپنائیں گے کہ:
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
سمجھا جائے تو یہ ایک اہم قومی ذمّہ داری ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • Piyara bhai amir khakwani sahab ap ki yeh kosish bohat hi achi or waqt a hazir ki ain zarorat hai. Allah ap ko is main kamyabian or asanian atta kera. Araz a paak main is waqt makalma or daleel ki jitni zarorat hai shaid kabhi na thi, aaj hamari kaum ko tashadud or adam bardasht ka bajaye fikri makalma or daleel sa baat kerna ki adat dalna ho gi warna almost banana republic to hum baan hi chuka hain.
    Meri tamaam duain ap or ap ki team ka sath hain.