ہوم << گَیسِنگ گیم، ایک خوبصورت کہانی . حنا نرجس

گَیسِنگ گیم، ایک خوبصورت کہانی . حنا نرجس

اور جب اس نے تیسرا موقع بھی کھو دیا تو ریّان کے لبوں سے نکلنے والی ہنسی بے ساختہ تھی.
"یہ تھے... قاری... سعد الغامدی..."saad-el-ghamidi
ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے آگاہ کیا گیا.
"اوہ، مجھے ایک بار لگا بھی تھا، پھر بھی میں نے قاری صلاح البدیر کا نام لے دیا."
"چلیں آپ کو ایک موقع اور دیتا ہوں، آپ بھی کیا یاد کریں گی. میں سی ڈی لگاتا ہوں، آپ تین منٹ تک غور سے سنیں اور بوجھیں."
وہ ہمہ تن گوش ہو گئی اور پہلے ہی منٹ میں بوجھ بھی لیا. "جناب یہ ہیں قاری مشاری راشد العفاسی."
اس بار فتح کی جھلک عائشہ کے لہجے میں تھی. "پانچ میں سے صرف ایک بار جیتی ہیں. آپ. مان لیں ممّا، اب میرا علم آپ سے زیادہ ہو گیا ہے."
ہاں ممّا، اب تو اکثر بھائی کا ہی پلڑا بھاری رہتا ہے." جویریہ بھی ریّان کی ہمنوا تھی.
mishary-rashid-alafasy"
تیرہ سالہ ریان اب پہلے سے زیادہ پر اعتماد تھا. مختلف قُرّا کی تلاوت سننا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا. وہ ان کے مسحور کن لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ میں کھو سا جاتا اور پھر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اسی لب و لہجے میں الفاظ اس کی اپنی زبان سے جاری ہو جاتے کیونکہ زبان کانوں کی بہترین مطیع ہے.
سوچوں کا سفر عائشہ کو سات سال پیچھے لے گیا جب ریّان پہلی جماعت کا طالب علم تھا جبکہ جویریہ پریپ میں تھی. خالد کام کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتے. وہ بھی ایک عام سی رات تھی. خالد چند روز کے لیے کراچی گئے ہوئے تھے. وہ حسب معمول سب کام سمیٹ کر بچوں کو لیے بستر پر آ گئی تھی اور سونے سے پہلے تلاوت کا کیسٹ لگا لیا تھا. اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر جویریہ شرارت سے بولی تھی،
"مما، ابو کو یاد کر کے مسکرا رہی ہیں نا؟"
وہ جھینپ گئی، "نہیں بیٹا"
" پھر کیوں مما؟ کوئی بات یاد آ گئی ہے کیا؟" اب کے سوال ریان کی طرف سے تھا.jnat-600x372
"بیٹا، دراصل جنت کے انعامات کا ذکر تھا وہ سن کر میں مسکرا دی تھی."
"اچھا تو تلاوت والے قاری صاحب جنت کی باتیں بتا رہے ہیں؟"
"ہاں بیٹا" اس نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیا.
تھوڑی ہی دیر میں دوزخ اور عذابِ الیم کا ذکر شروع ہو گیا.
جویریہ نے فوراً اس کی کیفیت محسوس کر لی.
"مما، آپ رو رہی ہیں نا؟"
یہ سن کر ریان بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا. اسے وضاحت دینا پڑی. ریان نے اپنے نرم ہاتھوں سے اس کی آنکھیں صاف کیں.
دونوں بچوں کے چہروں پر سوچ کی پرچھائیاں دیکھ کر اسے پہلی بار احساس ہوا کہ بچوں کو بھی اپنے شوق میں شریک کر لینا چاہیے. پھر روزانہ یہ ہوتا کہ وہ کیسٹ پلیئر کو روک کر بچوں کو آسان الفاظ میں آیات کا مفہوم اردو میں سمجھاتی اور پھر دوبارہ پیچھے سے کیسٹ چلا دیتی. یوں بچے بساط بھر سمجھنے اور تاثیر جذب کرنے کی کوشش کرتے. اب وہ بہت سے قاریوں کے انداز پہچاننے لگے تھے.
عائشہ مختلف قاریوں کی آواز میں تلاوت سنوا کر قاری صاحب کا نام بُوجھنے کو کہتی. اس طرح ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی. اور عائشہ کو ان کے ساتھ یہ گَیسِنگ گیم کھیلنے میں بہت مزا آتا. کیسٹس کا ذخیرہ وسیع ہو گیا تھا. پھر گھر میں کمپیوٹر آ گیا تو وہ سی ڈیز جمع کرنے لگی. اب اس سے زیادہ ریان اور جویریہ کو شوق ہوتا. وہ ناظرہ قرآن مکمل کر چکے تھے اور تکمیل پر آسان زبان میں لکھے دو رنگ والے مترجم قرآن بطورِ تحفہ پا کر بہت خوش تھے. مختلف سی ڈیز لگاتے اور کبھی ایک دوسرے کے ساتھ اور کبھی عائشہ کے ساتھ کھیلتے. اب تو آیات کا ترجمہ بوجھنے کا بھی مقابلہ ہوتا.
اسے یاد تھا انہی دنوں سہیلیوں کی محفل میں سوال اٹھایا گیا کہ آپ کی اپنے بچوں کے حوالے سے سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟
ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا پورے انشراحِ صدر کے ساتھ اس کا جواب تھا،
IMG13140060"قرآن کے ساتھ ان کے گہرے قلبی و عملی تعلق کو استوار ہوتے دیکھنا."
اور اس خواہش کی تکمیل میں وہ پوری لگن سے مصروفِ عمل تھی.
وقت کچھ اور آگے سرک آیا تھا. خبر ہی نہ ہوئی کب کل کے بچے کالج کے سٹوڈنٹس بن گئے تھے. ریان کا رجحان کمپیوٹر سائنس کی طرف جبکہ جویریہ کی دلچسپی میڈیکل میں تھی. ان کے مشترکہ شوق کے لیے اب کیسٹس اور سی ڈیز کی بجائے لیپ ٹاپ اور سیل فونز استعمال ہوتے. انٹرنیٹ پر بھی سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت کے ساتھ وسیع ذخیرہ موجود تھا. اکثر بچوں کی ہی ڈاؤن لوڈ کی ہوئی تلاوت بلیو ٹوتھ کے ذریعے وہ اپنے فون میں منتقل کرتی.
گَیسِنگ گیم بھی اب مشکل مرحلے میں داخل ہو چکی تھی. وہ اللہ کی بے پناہ شکر گزار ہوتی کہ بچے موسیقی اور دوسری لغویات سے بچے ہوئے ہیں اور انکی سماعت و
بصارت، جو حواسِ خمسہ میں سے اہم ترین ہیں، کسی برائی کے داخلی دروازے نہیں بنے ہوئے. وقت کا کام چلتے رہنا ہے اور اب تو گیسنگ گیم ایک بالکل ہی نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی. اس کی نوعیت بالکل ہی بدل چکی تھی.
مخصوص انداز میں داخلی دروازہ کھلنے کی آواز پر عائشہ نے کچن سے ہی آواز لگائی،
"ریان، آپ کو یونیورسٹی سے دیر ہو رہی ہے، جویریہ کو بھی چھوڑنا ہے، جلدی سے ناشتہ کر لو، آپ کا پسندیدہ آملیٹ بنا ہے."
"کرتا ہوں، مما. پہلے یہ سن کر بتائیں کہ آج میں نے نماز فجر کی امامت کن کے انداز میں کروائی ہے؟" یہ کہتے ہی وہ سیل فون میں ریکارڈنگ چلا کر فون کو اوون کے اوپر رکھ چکا تھا. اس نے سنتے ہی پہلا اندازہ لگایا،
"الشیخ صدیق المنشاوی"Mohamed-Siddiq-Al-Minshawi2
"نہیں" ریان کے لبوں پر شرارت مچل رہی تھی.
"ایک منٹ ٹھہرو، میرا خیال ہے یہ ہیں، قاری عبداللہ مطرود"
"نہیں میری پیاری ماں... اور آپ کو پتہ بھی کیسے چلے گا، آپ نے تو ان کو سنا ہی نہیں ہوا. یہ تھا پاکستانی قاری عبد الباسط المنشاوی کا انداز. آپ ان کی اوریجنل سنیے گا آج لیپ ٹاپ میں سے اور مجھے بتائیے گا کہ میں نے کیسی نقل کی." ریان بارہ سے زائد قُرَّا کی بہترین طریقے سے نقل کرتا کہ اصل کا گمان ہوتا.
رمضان المبارک کا مہینہ اپنے دامن میں رحمتیں لیے سایہ فگن ہو گیا تھا.
"مما، آج میرے ساتھ چلیں. آپ کے پسندیدہ ترین قاری صاحب کے انداز میں امامت کراؤں گا نمازِ تراویح کی. آخری پانچ سپارے یاد ہیں اب مجھے."
اور دورانِ نماز شکر کے آنسوؤں کی جھڑی تھی کہ تھمنے میں نہیں آ رہی تھی. ساتھ کھڑی جویریہ کی حالت بھی کم و بیش یہی تھی. الشیخ ماہر المعیقلی کا انداز تھا. بند آنکھوں کے ساتھ یوں لگ رہا تھا جیسے بیت اللہ میں ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں.
898bcebac09c4efbce106369c8a0f47f
ڈیفنس کی ایک مسجد میں وہ روزانہ فجر، مغرب اور عشاء کی امامت کراتا اور ظہر و عصر کی نماز یونیورسٹی کی مسجد میں پڑھاتا. نمازی اس کی بہت تعریف کرتے، بے حد
محبت کرتے اور اپنے بچوں کو اس کی مثالیں دیتے. اللہ تعالٰی نے اسے تواضع، عجز و انکساری اور شکر گزاری کی صفات سے بھی مالا مال کیا تھا.
آخری عشرہ چل رہا تھا. قیام اللیل کے بعد سحری کے وقت ان کی گھر واپسی ہوئی جبکہ ریان کسی دوسری مسجد سے آیا تھا اور اس کی بے چینی بتا رہی تھی کہ وہ کچھ بتانے کے لیے بے تاب ہے. سحری کا کھانا کھاتے ہی عائشہ کو برتن بھی نہ اٹھانے دیے.
"مما، آج آپ کا خاص امتحان ہے. سنیں اور بتائیں، میں نے صلوۃ الوتر میں دعا کن کے انداز میں کروائی ہے؟"
اس نے بولنے سے پہلے ذہن میں اندازے لگانے کی کوشش کی. الشیخ سعود الشریم،
نہیں وہ نہیں لگ رہے. مگر یہ الشیخ عبد الرحمن السديس بھی نہیں ہیں، شاید قاری احمد العجمى ہیں. Un-Known Facts about Imam Abdur Rahman Al-Sudais
"ریان، میں نے بُوجھ لیا، یہ انداز ہے قاری احمد العجمى کا."
"نہیں" وہ مسکرایا.
"قاری داؤد حمزہ"
"وہ بھی نہیں"
"قاری احمد الحذیفی"
"ایک بار پھر نہیں... میری پیاری مما... یہ انداز ہے الشیخ محمد جبریل کا!"
ہنستے ہوئے اس نے سر عائشہ کی گود میں رکھ لیا اور ہاتھ تھام کر بولا، "مما، آپ ایک ہی بار اپنی ہار مان کیوں نہیں لیتیں؟ اب تو اکثر آپ درست بُوجھ نہیں پاتیں. میں آپ کا شوق آپ ہی سے چرا کر آپ سے آگے نکل آیا ہوں اور آپ...
آپ... ہار گئی ہیں!!!"
شرارت اس کی آنکھوں سے مترشح تھی. نماز فجر کے لیے وضو کی غرض سے آستینیں اوپر کرتا ہوا وہ واش بیسن کی طرف بڑھ گیا. اندر گہرائی تک پھیلتے طمانیت کے احساس کے تحت عائشہ نے آنکھیں موند لیں. صراطِ مستقیم پر تا حدّ نگاہ نیکی و ہدایت کے جگنو روشن تھے. کلمہ شکر بجا لاتے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ گواہ تھی کہ وہ ہاری بہرحال نہیں ہے!!!

Comments

Click here to post a comment

  • نئ نسل کی تربیت کےحوالےسے منفرد پہلو کو اجاگر کرنے والی تحریر. ماشاءاللہ، بہت عمدہ!

    • اللہ سے دعا ہے کہ ہماری مخلصانہ کوششوں کو قبول فرمائے اور جو کمی کوتاہی رہ گئی، اپنی خاص رحمت سے اس کا ازالہ فرما دے. ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثبات عطا فرمائے.
      بہت شکریہ. جزاك الله!

  • جانے کتنی کہانیاں پڑھ ڈالی ہوں گی ۔ کہاں کہاں سے اور کس کس کی ؟ کون جانے ؟ ہاں اب تو بس یہی وہ عمر ہی یاد کی جا سکتی ہے جب کہانیان پڑھنے کا آغاز ہوا تھا۔ اور یہ آغاز غالبا سن شعور سے بھی پہلے حروف شناسی اور ان کے معانی کی تفہیم کے ساتھ ہی ہو گئی تھی، خیر یہ ت والگ قصہ ہے جوابھی آپ سے کہنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ ابھی تو بس یہی کہنا ہے کہ ایسی کہانی میں نے آج تک نہیں پڑھی ۔ بے وجہ ہی آنکھیں نم ہوتی گئیں ۔ حالانکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ بلکہ میں اس بارے میں بھی متردد ہوں کہ اسے کہنانی بھی کہنا چاہئے کہ نہیں ؟ ہاں اس بارے میں البتہ مجھے کوئی تردد نہیں کہ اسے پڑھنا ضرور چاہئے

  • میں خود بھی جتنی بار پڑھوں، میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں.
    اسے کہانی کہنے میں آپ کا تردد بجا ہے. یہ دراصل ٩٨ فیصد حقیقت پر مبنی تحریر ہے جسے پورے اخلاصِ نیت کے ساتھ لکھا گیا ہے.
    بہت شکریہ. جزاك الله!
    اللہ ہماری مساعی کو قبول فرمائے اور تربیت اولاد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

  • ماشااللہ ، تحریر پڑھ کے ایک عجب طمانیت کا احساس رگ و پے میں ثرایت کر گیا ۔ ویب پہ پیشکش کا انداز نہایت عمدہ ہے ۔ قراء حضرات اور جنت و دوزخ کے مناظر کی تصاویر نے تحریر کی افادیت کو مزید بڑھا دیا ۔ اللہ تبارک و تعالی ہمیں قرآن پاک کا زیادہ سے زیادہ فہم عطا فرمائے ۔ ہماری موجودہ اور آنیوالی نسلوں کو ایسی مائیں عطا کرے جو خود بھی دین پہ چلیں اور اپنی اولادوں کو بھی دین سے محبت سکھلائیں

    • آمین ثم آمین!
      بے حد قیمتی دعائیں. جزاك الله!
      جی مجھے بھی پیشکش کا انداز بہت پسند آیا. قراء کی تصاویر کے ساتھ تحریر کی افادیت اور دلکشی میں کئی گنا اضافہ ہوا.
      شکریہ، "دلیل. پی کے" : )
      واضح رہے جنت و دوزخ کو تو پردہ غیب میں رکھا گیا ہے.

  • قلم کی اس سچی نگارش نے دل کو روشنی اور دماغ کو ٹھنڈک سے بھر دیا...
    کیا ہی قیمتی مشغلہ ہے... کس قدر حسین انداز اور کیسا قابلِ رشک نتیجہ عطا کیا گیا... سبحان اللہ...
    زادك الله في حياتك و حسناتك و بارك الله في علمك... تقبل الله منا ومنك.. آمین ثم آمین يا كريم