ہوم << اسلامو فوبیا اور مسلم نسل کشی کا اندلسی ماڈل - فارینہ الماس

اسلامو فوبیا اور مسلم نسل کشی کا اندلسی ماڈل - فارینہ الماس

”اسلامو فوبیا“ ایک ایسی اصطلاح ہے جو مغرب کے دل میں موجود، عالم اسلام اور عالمی اسلامی معاشرے کے لیے تعصب،خوف اور نفرت کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ اصطلاح یورپی پروپیگنڈے کی عکاس ہے جس کی بنیاد نسلی اور مذہبی امتیاز پر رکھی گئی۔ اس اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے 192ء میں ہوا اور اسے مقبولیت 80ء اور 90ء کی دہائی میں حاصل ہوئی۔ اس مقبولیت کا مغرب میں آغاز ایک برٹش میگزین کے آرٹیکل کے ذریعے ہوا جو کہ مسلمانوں پر بنائی گئی ایک برٹش رپورٹ پر مبنی تھا اور اس کا عنوان تھا ”A challenge for all of us“۔ اس رپورٹ کا مقصد مسلمانوں کے باقی دنیا سے مذہبی، ثقافتی، تمدنی اور معاشی تضادات کو باور کروانا اور ان کے وجود سے دنیائے انسانیت کو لاحق خوف اور دہشت کو عیاں کرنا تھا۔ بڑی چالاکی سے ایک طرف تو مسلمانوں کے بڑھتے پرتشدد رویے کودوسرے مذاہب سے وابستہ انسانوں کے سر پر منڈلاتا ایک بھیانک خطرہ قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف اس دہشت اور violence کو ٹالنے اور روکنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تشدد یا violence کے استعمال کو ناگزیر قرار دے دیا گیا۔ ان کے خیال میں یہی اک راستہ تھا جو دنیا کی پرامن تہذیب کو بچانے اور پھیلانے کے لیے ضروری تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ war on terror کا آغاز تھا۔
اسلام کے خلاف پایا جانے والا یہ خوف اور تعصب کوئی نئی بات نہ تھا. یہ رویہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خوداسلام۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل افیئرز کے سابقہ ڈائریکٹر اور ماہر سیاسیات مسٹر سیموئیل ہنٹنگٹن کے بقول ”مغرب کو مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی کا نہیں، مغرب کو خطرہ اسلام سے ہے، ایک ایسی قوم سے ہے جو ایک بلکل مختلف تہذیب و تمدن کی حامل ہے۔ اگرچہ کہ طاقت میں یہ قوم کم تر ہے لیکن یہ اپنی تہذیب و ثقافت میں برتر ی کی حامل ہے۔“ مغرب اسی احساس کمتری کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو کبھی بنیاد پرستوں کا تو کبھی انتہا پرستوں کا لقب عطا کرتا آیا ہے۔ یہ اس دور جدید ہی کی بات نہیں کہ شدت پسند مسلمانوں کی کارروائیوں سے خفا ہو کر مغرب اور مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہو۔ بلکہ یہ بات بہت پرانی ہے کہ مغربی پروپیگنڈہ دنیا کو یہ باور کرانے پر تلا رہا ہے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا۔ جہاد کو بربریت سے تشبیہہ دے کر انسانی معاشرے میں عدم برداشت اور پرتشدد رویے کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔
کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والے تاریخ کی وہ جنگیں بھول جاتے ہیں جو عیسائیوں نے صلیب اور مذہب کے نام پر مسلمانوں پر انتہائی وحشیانہ طور پر مسلط کیں۔ ایک نامور سکالر John Esposito کا کہنا ہے کہ ”ہم اسلام کے ماننے والوں کے پرتشدد رویے پر ہمیشہ سوال اٹھاتے ہیں لیکن یہی سوال عیسائیت اور یہودیت سے کیوں نہیں کیا جاتا جبکہ دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید violent رویہ رکھتے ہیں۔ دراصل ہم نے خدا اور مذہب کے نام پر نفرت کے الگ الگ نظریات قائم کر رکھے ہیں۔ جن پر ہم سختی سے کاربند ہیں“ پنسلوینیا یونیورسٹی کے پروفیسر Phillip Jenkins نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے ”اگر محض مذہبی سکرپٹ کی ظاہری شکل مذہب کی ترجمان ہوتی ہے تو عیسائیت اور یہودیت اسلام کی نسبت کہیں زیادہ شدت پسند مذاہب ہیں.“
بہت سے ایسے مغربی rational اسکالرز، عیسائیوں اور یہودیوں کے اسلام کی طرف متشدّدانہ اور تعصبانہ رویے کو ہی مسلمانوں کے حالیہ رویوں اور ردعمل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تعصب کی اس ہوا کا آغاز صدیوں پہلے ہو چکا تھا۔ شکست اندلس مسلمانوں کو شدید تر اعصابی اور ذہنی احساس شکست اور احساس محرومی میں مبتلا کرتی نظر آتی ہے۔ مسلمان 712ء سے 1492ء تک سپین کے حکمران رہے۔ یہ ترقی و جدیدیت کا سنہرا دور تھا۔ علوم و فنون اپنے عروج پر تھے، ایجاد ہو یا تعمیر، سائنس ہو یا تہذیب، مسلمانوں کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہ تھا۔ اس دور میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری میں محض 600 کتب تھیں جبکہ سپین کے دارالحکومت قرطبہ کے خطاط ہر سال تقریباً 6 ہزار کتب تحریر کر رہے تھے۔ الحمرا پیلس مسلم فن تعمیر کا آج بھی ایک عجوبہ مانا جاتا ہے۔ معاشرے کا امن و امان مثالی تھا۔ پورے اندلس میں عیسائی اور یہودی امان میں تھے۔ اس دور میں اسلام اپنی بہترین تہذیب اور اعلی اقدار کی وجہ سے پورے مغرب میں پھیلا اور اس نے یورپ کے چرچ اور ایلیٹ کلاس کی طاقت کو چیلنج کیا۔
1492ء میں مسلم حکومت کے زوال سے مسلمانوں کو ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک خونی تاریخ رقم ہوئی۔ اندلس پر 780سالہ مسلم اقتدار کے شاندار دور کو یکسر فراموش کرتے ہوئے انہیں محکوم بنایا جانا اور پھر انہیں انتہائی وحشیانہ اور غیرانسانی سلوک میں مبتلا کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا منکر خود مغرب بھی نہیں ہوسکتا۔مغربی اشرافیہ اور مذہبی کلاس کو اپنا سابقہ احساس کمتری نکالنے کا نادر موقع فراہم ہوگیا۔ سو مسلمانوں کو زبردستی عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا، اور عدم تعاون کی سزا موت یا جلاوطنی کی صورت میں دی گئی۔ اسے تاریخ کی بد ترین نسل کشی کا نام دینا بےجا نہ ہو گا۔ یہ ایک ایسی نسل کشی تھی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، جب اندلس کے گلی کوچے خون انسانی سے رنگ دیے گئے، اور تقریباً 5 لاکھ اندلسی مسلمانوں کو قصہ ماضی بنا دیا گیا۔ نسل کشی کا یہ ماڈل آج بھی ان کے لیے کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔
یہ حرمت اسلامی کی پامالی کے آغاز کا دور تھا جس نے آگے چل کر اس خاص مسلم کش رویے کو مزید جلا بخشی۔ مغرب میں اسلام سے نفرت کا اظہار کھلے بندوں ہونے لگا۔ صرف 1800ء سے1950ء کے درمیانی عرصے میں مغرب میں انتہائی تسلسل کے ساتھ اسلام کے خلاف زہر اگلتی کتابیں تحریر کی گئیں، تعداد تقریباً 6ہزار تھی۔ میڈیا کی ترقی ہوئی تو اسلام کے خلاف اشتعال انگیز فلمیں بنائی جانے لگیں کیوں کہ اب دور آیا تھا ایک مضبوط اور بھرپور میڈیا پروپیگنڈا کا۔ سو اس سارے پروپییگنڈا کا مقصد مغرب میں اینٹی اسلام جذبات کو ابھارنا تھا۔ The clash of civilization جیسی تحریریں بھی اسی پروپیگنڈہ کا حصہ رہیں۔
مغربی حکومتوں نے اسلاموفوبیا کو پھیلانے کے لیے خاص حکمت عملیاں تیار کیں۔ انہی کا ایک حصہ عالم اسلامی کی سیاسی اور تمدنی تبدیلیاں ہیں جو آج ہمیں نظر آ رہی ہیں۔ اور یہ سب پلان کرتے ہوئے نہ تو مغرب کی اعتدال پسندی آڑے آئی اور نہ ہی انسانیت پسندی۔ اپنی تمام تر روشن خیالی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے مغرب میں آج بھی 60سے70فیصد تحریریں مسلم بیزاری اور اسلام دشمنی پر لکھی جاتی ہیں۔ قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات کو غلط تشریحات دے کر پھیلایا جاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً ایک خاص منصوبے کے تحت مسلمانوں کی شہ رگ پر حملے کرنے کے لیے ناموس رسالت کی بےحرمتی جیسے اقدامات بھی اٹھائے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر رگیدا جا سکے۔ ان کی اعصاب شکنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔
مسلمانوں کے دل فلسطین کو یہودی آباد کاری سے کس طرح داغ دیے گئے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہودیوں کی مسلم دشمنی کو پرکھنے کے لیے اٹلانٹا میں ہونے والے یہودیوں کے ایک بڑے مذہبی اجتماع میں ایک یہودی ربی shalom کا یہ خطاب ہی اس کی بڑی عکاسی کا باعث ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک کھلے اعلان جنگ کے طور پر دنیا کی سماعتوں سے ٹکرایا۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں،
”ہمارا دشمن جو بظاہر انسانی چہرہ مہرہ رکھتا ہے لیکن درحقیقت اس کا دل، اس کی روح بالکل غیرانسانی ہے، یہ ایک ایسی بلا ہے، یہ ایک ایسی آفت ہے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ اس کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا ایک بلین ہے جس کا 5 فیصد حصہ دنیا میں دہشت پھیلا رہا ہے۔5 فیصد کا مطلب 50ملین مسلمان ہیں جو قرآن اٹھائے، منہ سے اللہ اکبر کے کلمات جاری کرتے ہمارے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ہمیں ان سے نفرت ہے لیکن محض نفرت سے کام نہیں چلے گا، ہمیں ان کا قلع قمع کرنا ہوگا بغیر یہ سوچے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں، ہمیں سپین کی طرح انہیں جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ اسرائیل ہماری جنگ لڑ رہا ہے، ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ امریکہ ہمارا ساتھ دے رہا ہے۔ خدا اسرائیل اور امریکہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔“
عیسائیوں کا right wing بھی دنیا کو مسلم نسل کشی کے ایسے ہی خیالات پر آمادہ کرتا نظر آتا ہے۔ ایک معروف عیسائی جریدے میں چھپنے والے مضمون کی چند سطریں ملاحظہ ہوں ”عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ امن سے رہنا ناممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مورز (moors) کو زبردستی عیسائی بنا لیا جائے یا اپنے ملک سے نکال باہر پھینکا جائے۔اگر ایسا ممکن نہیں تو تیسرا راستہ ان کی نسل کشی کا ہے.“
اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انتہاپسند یہودی و عیسائی مسلم نسل کشی کے اندلسی ماڈل کو کس قدر قابل تقلید سمجھتے ہیں.
مغرب سے باہر نکل کر دیکھیں تو باقی غیر مسلم دنیا بھی اسی ماڈل کی گرویدہ دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کے ایک معروف انگریزی اخبار کے ایک ہندو جرنلسٹ نے اپنے ایک مضمون کے ذریعے اس ماڈل کو عیاں کرنے کی جسارت کچھ اس طرح کی ہے:
”ہندوستان میں آریہ سماج، راما کرشنا مشن، وشواہندو پریشد اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلم نسل کشی کا سپین کا ماڈل اپنا رکھا ہے۔ یہ ہندو مسلم فسادات کی آڑ میں مسلم اقلیت کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اور ان کے گھر بار کو فسادات کی آڑ میں جلا دیا جاتا ہے۔ 5فیصد ایلیٹ مسلمان تو ہندو سماج کا حصہ بننے پر مجبور ہے لیکن 95 فیصد کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ طبقہ انتہائی غربت اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے مظالم سہنے پر بھی مجبور ہے۔ یہاں مسلم سیاسی جماعتیں ہندو جماعتوں کا دم چھلا رہی ہیں۔ چند ایسے مسلم لیڈران ہیں جو مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کا دفاع کرتے ہیں لیکن یہ لیڈران بھی اسلام کو تحفظ دینا چاہتے ہیں مسلمانوں کو نہیں۔“
بھارت کی کئی ریاستوں مثلاً گجرات، بہار، احمدآباد، حیدرآباد وغیرہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ان گنت واقعات ہو چکے ہیں۔ محض کشمیر میں ہی 1989ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو بےدردی سے شہید کیا جا چکا ہے۔
بوسنیا کے مسلمانوں کے خون سے جس طرح ہولی کھیلی گئی، ان واقعات نے بھی کرب اور دل افگاری کے ناقابل بیان حالات کی داستان رقم کی۔ سربوں نے تقریباً 2ل اکھ نہتے مسلمانوں کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ برما میں بدھ مت قوم نے اپنے امن و آشتی کے مذہبی درس کو فراموش کر کے جس طرح مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ فلسطین میں 1948ء سے لے کر اب تک نہتے فلسطینی جوانوں، بوڑھوں، اور بچوں کے گرتے لاشے مغرب اور عالمی مغربی اداروں کی بےحسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جنگ میں بھی لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے.
اس تمام صورتحال پر ترقی یافتہ اور نام نہاد جمہوری معاشرے عجیب طرح کی چپ سادھے رہے. انہیں عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوئوں کی انتہاپسندی یا دہشت گردی ذرہ برابر بھی دکھائی نہیں دیتی۔ کبھی کبھی ارون دھتی جیسی باضمیر اور بےباک شخصیات معاشرت اور سیاست کے داغدار چہروں اور نظریات کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں جن پر انسانیت کے ٹھیکے دار کان بھی نہیں دھرتے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں جب تین مسلم نوجوان ایک انتہا پسند عیسائی کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے تو مغربی میڈیا کی اس واقعے پر سادھی گئی خاموشی کو لتاڑتے ہوئے مسلم جیوش کرسچین الائنس کے فاوئنڈنگ ممبر مسٹر Kevin Barrett نے لکھا کہ ”اس واقعے پر خاموشی اختیار کر کے درحقیقت میڈیا بھی مسلمانوں کے قتل عام کا حصہ دار بن گیا ہے، ہمارا انتہاپسند میڈیا دراصل دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تحفظ کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس نسل کشی کے خلاف اپنا دفاع کریں.“
ایک خاص منصوبہ بندی سے تصویر کا ایک ہی رخ مغربی معاشرے اور باقی دنیا کے سامنے رکھا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر اقدام کو مغربی عوام کی تائید حاصل رہے۔ اسی سازش کا حصہ ہے کہ خود اسلامی ملکوں میں بھی ایک خاص پڑھی لکھی سیکولر سوچ پیدا کر کے اسے مسلمانوں کی معاشرت اور تمدن کے خلاف شرانگیزی اور منافرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بہت ہی عجیب اور حوصلہ شکن بات ہے کہ اسلاموفوبیا یا مسلم نسل کشی کے خلاف خود مغرب میں بعض لوگ سوال اٹھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں مگر ہماری ہاں لبرل کلاس اسے ایک فرسودہ اور خام خیالی پر مبنی سوچ قرار دے کر ایسے سوالات اٹھانے سے قاصر ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہم اپنی ہر کمزوری، ہر خامی اور ہر شکست کے لیے مغرب کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے اور ایک لمحے کو یہ بھی مان لیں کہ ہماری پسماندگی اور ہمارے گھمبیر مسائل میں مغرب کا کوئی ہاتھ نہیں۔ چلیں ہم rational بن کر ان حقیقتوں کو مسلمانوں کی خود کی بنائی کہانی ہی سمجھ کر اس سے مفر اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے کسی ایک مسئلے کا ذمہ دار مغرب ہے۔ پھر بھی مغرب کی اس دوہری پالیسی کی حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی جو کسی مغربی ملک میں حملے کے وقت کچھ اور ہوتی ہے اور کشمیر، فلسطین یا شام میں بےگناہ، نہتے مسلمانوں کا خون بہہ جانے پر کچھ اور۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ رہے گی کہ مسلمان مغرب کی عسکری، تہذیی اور معاشی جارحیت کا شکار ہیں.
ہمیں اس خاص مغربی رویے کے باوجود پرتشدد راستوں پر چلنے کے بجائے اس وقت دو طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا ہوگا۔ اول یہ کہ خود کو مجرم یا کمزور سمجھنا چھوڑنا ہوگا۔ اگر ہم آج کسی سازش کا شکار ہیں تو اس سازش کو پھیلانے میں سب سے بڑا آلہ کار ہم خود بن رہے ہیں۔ ہمیں دہشت گرد قرار دے کر، درپردہ ہماری اعصاب شکنی کی جا رہی ہے۔ وہ اسلام کی نفرت میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ خود بھی ایک خاص ذہنی کیفیت اور اعصابی تنائو کا شکار ہیں۔ مغرب کے اسی تنائو کا نام اسلامو فوبیا ہے۔ درحقیقت انہیں مسلمانوں کی پھیلائی دہشت گردی کا خوف لاحق نہیں بلکہ اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا خوف لاحق ہے۔ اسلام جس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ چیلنج مغرب کی راتوں کی نیند اڑا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یوکے اور فرانس میں پچھلے دس برسوں میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ جرمنی میں ہر سال امریکہ میں 20 ہزار افراد اسلام قبول کر رہے ہیں ۔9/11کے واقعات کے بعد اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بہت سے لوگوں نے اسلام کے خلاف مغرب کے پھیلائے پروپیگنڈہ کے بعد اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ہمیں احساس کمتری کا شکار ہونے اور اپنے آپ کو کوسنے دینے کے بجائے ایک نئے احساس میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ اور وہ ہے خود پر فخر کرنا، اپنی ثقافت اور تمدن کو ذہنی اور روحانی طور پر قبول کرنا اور اسی سے اپنا نیا کردار تخلیق کرنا۔ ہمیں power of arms کے بجائے power of aims اور power of ideas کو اپنانا ہوگا۔ قلم کا جہاد ہی اپنے خلاف ہونے والے ہر پروپیگنڈے کا جواب بنے گا۔ اسی کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کی جدید اور قابل قبول راہیں دریافت ہو سکیں گی۔ اسی کے ذریعے گمراہ لوگوں کو جو متشدد راستوں کو اپنی نجات بنا چکے ہیں، جو بہکاوے میں آکر اپنا اور اپنوں ہی کا لہو بہانے لگے ہیں، ان کی بھی اصلاح ہو پائے گی۔ قلم کے جہاد سے ہی اجتہاد کا دروازہ کھلے گا۔ قلم سے نکلی دلیل اور منطق نہ صرف ہم میں رواداری اور برداشت کے اوصاف پیدا کرے گی بلکہ ہم ترقی میں بھی مغرب کے برابر آکھڑے ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment