ہوم << عورت، پیر کی جوتی - نورین تبسم

عورت، پیر کی جوتی - نورین تبسم

”عورت پیر کی جوتی ہے۔“یہ جملہ ایک گالی سے کم نہیں۔ نہ صرف دینے اور لینے والے کےلیے بلکہ ایسا سوچنے والے کے لیے بھی. یہ منفی طرزِفکر کا عکاس اور بظاہر مرد کی حاکمیت اور عورت کی طرف سے خود ساختہ مظلومی کا اشتہار دکھتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بہت بڑا انعام بھی ہے کہ جوتی کا پیر سے وہی رشتہ ہےجو لباس کا جسم سے۔ قرآن پاک میں عورت اور مرد کے جائز تعلق کی دلیل ”لباس“ سے دی گئی ہے۔ سوچا جائے تو لباس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔ وہ نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی اور معاشرتی طور پر بھی اس سچائی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لباس کے بعد جوتا انسان کی زندگی کا لازمی عنصر ہے۔ دُنیا کے پتھریلے راستوں پر چلنے میں بنیادی کردار جوتے کا ہی ہوتا ہے۔ عام معنوں میں جوتا ہمیشہ جوڑے کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، اور دونوں پیر کے جوتے ایک جیسے اور ایک سی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُن کی بناوٹ میں جو معمولی سا پوشیدہ فرق ہے وہی اُنہیں ایک دوسرے سے جُدا کرتا ہے۔
برسوں آگہی کے آبِ حیات کا قطرہ قطرہ رگوں میں جذب کرنے کے بعد اب زہر کی صورت لفظوں میں اُتارنے تک اور پوری زندگی میں نہ صرف بہت قریب سے بلکہ معاشرے، کتابوں، ماضی قریب اور ماضی بعید کی تواریخ کے مطالعے کے بعد اس جائز بندھن کے حوالے سے یہی محسوس ہوا کہ ”عورت اگر اپنی کھال کی جوتیاں بھی بنا کر مرد کو پہنا دے، پھر بھی وہ اپنی زندگی میں عورت کے کردار کے حوالے سے سدا کا ناشکرا ہی رہے گا۔“
کائناتِ انسانی کی اولین تخلیق ہونے کا استحقاق رکھتے ہوئے، دُنیا اور معاشرے میں آسمانی کتابوں سے لے کر زمینی حقائق تک اور منطقی استدلال سے جذباتی طرزِفکر تک ہر جگہ ”مرد“ کو اولیت حاصل ہے۔ روحانیت کے مراتب ہوں یا تصوف کے مسائل مرد کا مقام سب سے اونچا ہے۔ معاشی جدوجہد اور جسمانی محنت و مشقت میں بھی اُس کی برتری سے انکار ممکن ہی نہیں۔ اسی لیے تو مرد عورت پر ”قوام“ ہے۔ یوں وہ ہر طرح کی سوچ میں آزاد اور ہر طرح کے عمل میں بھی خودمختار ہے۔ اُس کی جبلت میں پرویا گیا حاکمیت کا یہ احساس عمر کے ہر دور میں بننے والے رشتوں میں لاشعوری طور پر موجود رہتا ہے۔
اللہ کے کلام کی حقانیت سے انکار نہیں اور دل سے ایمان ہے۔ جب اس میں ربِ کائنات نے فرما دیا کہ ”مرد عورت پر قوام ہے۔“ اور نبی کریمﷺ کی ایک حدیث ِپاک کا مفہوم ہے کہ ”جہنم میں عورتوں کی موجودگی کی بڑی وجہ اُن کا مرد کے حوالے سے ناشکرگزار ہونا ہے۔“ تو ہم کون ہوتے ہیں فتوٰی دینے والے کہ کون زیادہ ناشکرا ہے؟ مرد یا عورت۔
اللہ نے انسان کوعقلِ سلیم عطا کی ہے اور قرآن پڑھنے سے زیادہ اس پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم لفظ پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حکم مانتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے۔ عورت کی ناشکری کی وجہ محض یہ نہیں کہ وہ مرد کی برائی کرتی ہے بلکہ اُس کی ناشکری یہ ہے کہ وہ نہ صرف مرد کو بلکہ اپنےآپ کو بھی سمجھنے میں ناکام رہتی ہے۔ جو جس خمیر سے بنا ہو اُس کی ہیّئت تو بدلی جا سکتی ہے لیکن خاصیت نہیں۔ مرد کے خمیر میں اگر حاکمیت لکھ دی گئی ہے تو عورت کے خمیر میں بھی تو اپنی ”میں“ کی نفی کر کے ایک نئے وجود کی تخلیق لکھی گئی ہے۔
عورت کو ایک نئی زندگی، ایک نئے وجود کو سامنے لانے کی بیش بہا صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ اپنی ذات کو وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لینا تو اس عظیم معجزے کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ بات صرف اپنے کردار کے احساس کی ہے۔ ایک نئی نسل کو پروان چڑھانے کی ہے۔
باپ، وہ انسان جو بچے کی پیدائش سے پہلے اگر اپنے وجود کے اس حصے سے بےخبر رہتا ہے تو بعد میں بھی اولاد کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کبھی نہیں پیدا کر پاتا، جو ماں سے لمس کے رشتے کی بدولت ایک فطری عمل ہے۔ باپ کو اپنی مشقت کے احسان کا اکثر گلہ رہتا ہے، کبھی اندر ہی اندر چپ سادھ کر تو کبھی خوفناک ”جنریشن گیپ“ کی صورت۔ساری عمر گنوا کر بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اور ماں کو ہمیشہ سے بچا کچا کھانے کی عادت بچا لیتی ہے، بچی کھچی زندگی میں باسی محبت کی آس ہی اس کے لیے بہت بہت کافی ہوتی ہے۔
مرد اتنا کم عقل کیوں ہے کہ اپنی ماں کے ساتھ احترام کا عکس اپنے بچوں کی ماں میں دکھائی نہیں دیتا۔ اپنی ماں چاہے ساتھ رہتی ہو یا ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکی ہو، وہ آسمان ہے تو اپنے بچوں کی ماں جو اسے زمین پر اپنے وجود کا احساس دیتی ہے، دنیا کی نظر میں معتبر بناتی ہے، وہ اسے انہی کے سامنے پاتال میں دھکیل دیتا ہے۔ دکھ ناقدری کا نہیں، حیرانی جہالت پر ہے، اسی شاخ پر ضرب لگانے کی جس پر آشیاں ہے۔ کوتاہ نظری یا ناشکری کا یہ احساس وقت گزرنے کے بعد بھی بہت کم کسی کو ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو اپنی کمزوری بہت کم ہی کسی نے ظاہر کی ہے۔
اہم یہ ہے کہ عورت چاہے ماں ہے یا بیوی، وہ کبھی بھی ناقدری کا آسیب خود پر مسلط نہ ہونے دے۔ اولاد کی طرف سے یا شوہر کی طرف سے، کہ اس کا سراسر نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے یا پھر اس کے بچوں کو اور ان کی زندگی کے تسلسل کو بھی۔ عورت کے لیے خاص سبق یہی کہ آنکھ بند کر کے اپنا فرض ادا کرے اور حق کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے تو پھر ہی بات بنتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ عورت سے بڑا بلیک میلر بھی اور کوئی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت یا تو مظلوم ہے اور یا پھر مرد سے ہر سطح پر برابری اور مقابلہ کرنے کی جنگ اور جنون میں مبتلا۔ درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے الٹ ضرور ہے۔ عورت اپنے جسمانی افعال و کردار کے پسِ منظر میں کمزور ضرور ہے لیکن مظلوم ہرگز نہیں۔ ”ماں“ کا رتبہ عورت کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر وہ اسے اپنی طاقت سمجھ کر ”خودترسی“ کا شکار ہو جاتی ہے۔ مرد اور عورت اس رشتے میں بندھنے کے بعد اگر ایک دوسرے کی برابری کا حق تسلیم کر لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہ رہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک اپنی انا کا بت سجا کر دوسرے سے سجدوں کی توقع پال لیتا ہے۔ یوں زندگی اگر مگر میں گزر جاتی ہے یا کاغذ کا رشتہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح ہر وقت قضا کے جھکڑوں کی زد میں رہتا ہے۔ توازن ہر رشتے ہر رویے کی بنیادی شرط ہے۔ جہاں مرد ذرا کمزور ہوتا ہے عورت حاوی ہو جاتی ہے۔ عورت مرد کا تعلق بہت کم کہیں برابری کی شفاف سطح کو چھو سکا ہے اور وہ بھی جگہ جگہ سمجھوتے کی گرہ لگا کر۔ کبھی سمجھوتے کی گرہ عورت کی ذمہ داری بن جاتی ہے تو کبھی مرد خاموشی سے اپنی ذات میں گرہیں لگاتا چلا جاتا ہے۔ اگرچہ عورت اپنی پوری زندگی ہی کیوں نہ اس رشتے کو بچانے کی نذر کر دے لیکن معاشی معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے حد درجہ دباؤ کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر اپنی فطرت کے برخلاف زیادہ سمجھوتے مرد کا ہی مقدر ہیں۔
عورت کی زندگی میں آنے والا مرد خواہ وہ رشتوں کے حوالے سے آئے یا تعلقات کا جامہ پہن کر، وہ کبھی بھی عورت کی طلب کی خوشبو کو چھو نہیں سکتا۔ ہاں بیٹے سے خون کا رشتہ ہوتا ہے تو اس کو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے بہت اچھی طرح، لیکن، اپنی شادی کی پہلی رات جب وہ ایک دوسری عورت کے سامنے ہوتا ہے اور اُس کی ماں حیات ہو اس وقت تو اس کی پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ ”میری کوئی چاہ نہیں، کوئی ڈیمانڈ نہیں، بس میری ماں کا خیال رکھنا اُس بےچاری نے بہت کڑا وقت دیکھا ہے۔“ اور یہ ”بےچاری“ فقط حاشیہ آرائی ہے ورنہ اگلے روز کی صبح لاشعوری طور پر ہی سہی ”وہ“ اپنی دُنیا میں سب سے طاقتور مالکن بن کرسامنے آتی ہے۔
اُن نام نہاد حقوق نسواں کی علم بردار خواتین کے نام ایک راز کی بات! ماننا شکست کا نام ہے اور شکست کھانا وہ بھی ایک کمزور اور محکوم عورت سے مردانگی کی توہین ہے۔عورت کے لیے مرد کی فطرت کے اس پہلو کو سمجھنا اور پھر ماننا بہت ضروری ہے۔ اپنی خودساختہ انا کو جھکانے کا فن عورت کے لیے مشکل ضرور ہے لیکن بند کمرے میں ایک مرد کے ہاتھوں جوتے کھانا بہتر ہے بجائے اس کے سرِعام ”گینگ ریپ“ کا شکار ہو کر معاشرے کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔ عورت نے صرف جھکنا ہے ورنہ ٹوٹ جاتی ہے۔
مرد کی فطرت! بیٹی ہو یا عورت سے کوئی اور تعلق خواہ ماں کا ہی کیوں نہ ہو جب تک ایک درجہ نیچے رہے، مرد اپنے تحفظ کے حصار کی بڑائی میں خوشی خوشی اپنی جان و مال بےدریغ نچھاور کرتا ہے لیکن جیسے ہی عورت کی برابری کا احساس قریب آئے اس کا رویہ بدل جاتاہے۔ مرد کی برائی ہرگز نہیں، بس اس کی فطرت میں لکھی گئی برتری کی کرشمہ سازی ہے۔
آخری بات
جب کوئی کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لیتا ہے تو اس کے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ عورت کو خواہ پاؤں کی جوتی سے بھی کمتر محسوس کیا جائے لیکن اُس کے دل کے ماؤنٹ ایورسٹ پر بہت کم کسی کے قدموں کے نشان اُترتے ہیں اور اس تک پہنچنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ لیکن جو اس برف کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا، اُسے پھر کہیں اور جانے کے ضرورت نہیں پڑتی۔
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اس سے تم بھی آسودہ رہو گے
نہ خوش ہو گے نہ پژمردہ رہو گے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن
اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
(زہرہ نگاہ)