ہوم << گلوبل ولیج کی چوپال - ریحان اصغر سید

گلوبل ولیج کی چوپال - ریحان اصغر سید

ریحان اصغر سید یہ گلوبل ولیج کی چوپال کا منظر ہے۔ چوپال بہت وسیع و عریض اور خوبصورت ہے، جس میں کہیں مخملی گھاس کے قالین بچھے ہیں کہیں میز کرسیاں اور صوفے لگے ہیں. میزوں پر فینسی حقے، سگریٹ پان، چائے کافی سگار سے لے کر پینے کے ہر قسم کے مشروبات کا سامان دھرا ہے۔ گلوبل ولیج کے اکثر باسی شام کو یہاں آتے ہیں اور کچھ اچھا وقت گزار کے چلے جاتے ہیں. کبھی کبھی تلخی اور لڑائیاں بھی ہو جاتیں ہیں.
آج کل بھی چوپال کے حالات کچھ کشیدہ ہیں، ابھی شام ہونے کو ہے. سب سے پہلے سات بھائی چوپال میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے جسموں پر ریشم کے چوغے نما قیتی لباس ہے اور ان کے سروں پر سونے کے تاج چمک رہے ہیں. یہ ساتوں سگے بھائی ہیں، ان میں سے دو بڑے بھائی آگے آگے ہیں۔ یہ ابوظہبی اور دبئی ہیں، ان کے تاجوں میں ہیرے جوہرات بھی جڑے ہوئے ہیں اور ہاتھوں میں قیمتی انگوٹھیاں ہیں، ان کے پیچھے شارجہ اور فجیرہ وغیرہ پانچ بھائی ہیں جو دبئی اور ابوظہبی کی طرح امیر کبیر تو نہیں لیکن اچھے خاصے کھاتے پیتے اور صاحب ثروت ہیں۔ ساتوں بھائیوں کی چوپال میں ایک میز مخصوص ہے جس پر قہوہ، حقہ، کجھوروں سمیت دیگر لوازمات مہیا ہیں۔ سارے بھائی باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی میز کے گرد بیٹھ جاتے ہیں، تھوڑی دیر میں ایک کرخت چہرے والا لحیم شحیم شخص چوپال میں داخل ہوتا ہے. اس شخص نے کمانڈوز جیسی یونی فارم پہن رکھی ہے، اس کے دونوں کندھوں پر میزائل بندھے ہیں اور پشت پر ایک بیگ ہے جس میں ایٹم بم چلانے کا ریموٹ کنٹرول سسٹم ہے. کرخت شکل شخص کا نام شمالی کوریا ہے، شمالی کوریا کے بوٹ پھٹے ہوئے اور کپڑے خستہ حال ہیں، شمالی کوریا اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اردگرد دیکھتا ہوا ایک کونے میں جا کے بیٹھ جاتا ہے اور اپنی بندوق کو کھول کے صاف کرنے لگتا ہے.
اس کے ساتھ ہی چوپال میں تھری پیس سوٹوں میں ملبوس، پرفیوموں میں نہائے ہوئے سفید فام لوگوں کی ٹولی داخل ہوتی ہے۔ یہ ہٹے کٹے خوش لباس یورپی یونین کے ممالک ہیں، یہ لوگ تھوڑی دیر کھڑے ہو کے ہیلو ہائے کرتے ہیں، پھر چوپال کی بار کی طرف بڑھ جاتے ہیں، اب چوپال میں لوگوں کی مسلسل آمد جاری ہے، سوکھے سڑے ادھ ننگے افریقی ممالک بھی آ رہے ہیں اور عجیب و غریب لباس میں ملبوس ساوتھ امریکہ کے ممالک بھی جن میں سے کچھ خوش خال دکھائی دیتے اور کچھ مفلوک الحال، اتنے میں سروں پر تاج پہنے دو لوگ اندر داخل ہوتے ہیں، ایک نے ریشمی چوغہ نما لباس پہن رکھا ہے اور ہاتھ میں تسبیح ہے، یہ سعودی عرب ہے، اس کے ساتھ سوٹ میں تاج والا کافی بوڑھا سا آدمی برطانیہ ہے. یہ دونوں بھی مختلف لوگوں سے ملتے ملاتے چوپال میں گھل مل جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں سٹیج پر ایک نیم برہنہ سی عورت نمودار ہوتی ہے اور میوزک کی آواز پر تھرکنا شروع ہو جاتی ہے اس عورت کا نام تھائی لینڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی چوپال میں سانولے سے لوگوں کا ایک گروہ داخل ہوتا ہے، سب سے آگے والے شخص کی ٹنڈ ہے بس سر کے بیچ میں بالوں کی ایک لمبی بودی ہے جسے کی چٹیا بن کے اس کی کمر پر لٹک رہی ہے، چٹیا میں ہیرے جوہرات جڑے ہیں، یہ بھارت ہے، بھارت سونے کے زیوارت سے لدا ہوا ہے، ماتھے پر سرخ ٹیکا ہے اور چہرے پر مکاری کے تاثرات ہیں، اوپر والا دھڑ ننگا ہے اور نیچے اس نے بھاری بھر کم سفید دھوتی پہن رکھی ہے. بھارت کے پیچھے ننگ دھڑنگ اور سوکھے سڑے نیپال، برما اور مالدیپ ہیں جو بھارت کی دھوتی کو اٹھائے غلاموں کی طرح چل رہے ہیں. بھارت چہرے پر نخوت آمیز انکساری سجائے سب کو جھک جھک کے پرنام کر رہا ہے۔ عربوں سے گلے مل کے وہ یورپ والوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے
اس کے ساتھ ہی چوپال میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوتا ہے، اس شخص کا پورا جسم خون آلود ہے اور ایک بازو بھی کٹا ہوا ہے، برانڈڈ ٹی شرٹ کے نیچے شلوار پہنے یہ شخص ننگے پائوں ہے، اس کے پیروں سے بھی خون بہہ رہا ہے لیکن بےنیازی سے چیونگ چباتا شخص اپنے زخموں سے خاصا لاپروا لگ رہا ہے، اس کا نام پاکستان ہے۔ پاکستان کے کندھوں پر بھی شمالی کوریا کی طرح میزائل اور پشت پر ایٹم بم والا بیگ ہے. پاکستان کے چوپال میں داخل ہوتے ہی چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں، ہر کوئی پاکستان کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے، پاکستان پیروں سے زمین کو کوٹتا ہوا پہلے عربوں کی ٹیبل پر جاتا ہے، سعودی عرب اپنے سونے کے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر پاکستان کو پیش کرتا ہے، سگریٹ سلگا کے پاکستان سونے کو لائٹر اور سگریٹ کیس کو اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے، کچھ دور کھڑا بھارت پاکستان کو گھور رہا ہے. اتنے میں پاکستان وہاں سے پائوں گھیسٹتا ہوا یورپ والوں کی طرف بڑھتا ہے، یورپ والے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر تیزی سے منتشر ہو جاتے ہیں، پاکستان کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہو کے غائب ہو جاتی ہے اور وہ اکیلے بیٹھے شمالی کوریا کی طرف بڑھ جاتا ہےاور اس سے ہاتھ ملاتا ہے. اتنی دیر میں چوپال میں دھوپ کا چشمہ لگائے اوسط قامت کا ایک انتہائی تیز طرار شخص داخل ہوتا ہے، سپاٹ چہرے والا شخص ہر آدمی سے ملتا ہے، یہ چائنہ ہے، پاکستان دوڑ کے چائنہ سے گلے ملتا ہے، چائنہ کا چہرہ سپاٹ رہتا ہے، وہ نرمی سے پاکستان کو خود سے الگ کر کے حال چال پوچھتا ہے، پھر مشفقانہ انداز میں پاکستان کے خون آلودہ گال پر تھپکی دیتا ہے اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے، میں یہی ہوں کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتانا.
اتنی دیر میں چوپال کی انٹرنس پر کچھ ہلچل کے آثار پیدا ہوتے ہیں. لگتا ہے کسی خاص ہستی کی آمد آمد ہے، وہ خاص ہستی گلوبل ولیج کے چوہدری آمریکہ کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے۔ انتہائی قیمتی سوٹ میں ملبوس دیو قامت امریکہ طاقت کے نشے میں جھومتا ہوا چوپال میں داخل ہوتا ہے. امریکہ کے ہاتھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں اور منہ پر خون لگا ہے، امریکہ کے پیچھے حواریوں کا ایک گروہ ہے. سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی پشت پر چند رسیاں ہیں جن کے ساتھ انتہائی زخمی اور نیم مردہ لوگ بندھے ہیں، زخمی لوگوں کے منہ سے کراہیں نکل رہی ہیں اور زخموں سے مسلسل خون رس رہا ہے. یہ افغانستان، عراق، اور لیبیا ہیں. امریکہ اور بھارت خوب کٹ کے جھپی لگاتے ہیں، بھارت امریکہ کے کان میں کوئی بات کہتا ہے اور ساتھ پاکستان کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے، لگتا ہے پاکستان کی شکایت لگائی جا رہی ہے. امریکہ پاکستان کو گھورتا ہے، قدم بوسی کا خواہشمند پاکستان بےبسی سے انکار میں سر ہلاتا ہے اور ہاتھ جوڑتا ہے. اتنی دیر میں بھارت امریکہ کے پیچھے بندھے زخموں سے چور نیم مردہ افغانستان کو نظروں ہی نظروں میں کوئی اشارہ کرتا ہے، افغانستان اٹھ کے بیٹھ جاتا ہے اور پاکستان کو گالیاں دینے لگتا ہے، اس نے ہم کو برباد کر دیا، آج ہمارا جو حال ہے سب اس کی وجہ سے ہے، میں تو کہتا ہوں دنیا میں سارے فساد کی جڑ یہی شخص ہے۔ چوہدری صاحب اس کو پھانسی چڑھا دو۔ غصے کی شدت سے افغانستان کانپ رہا ہے، اپنی بات مکمل کرکے وہ بیٹھے بیٹھے پاکستان کو مارنے کی نیت سے جھپٹتا ہے لیکن ادھ راستے میں ہی گر جاتا ہے اور زور زور سے کھانسنے لگتا ہے. امریکہ اس کی پشت پر تھپکی دیتا ہے اور بھارت نسوار نکال کر ایک چٹکی اس کے منہ میں ڈالتا ہے، یورپی پانی کا گلاس لا کے پلاتے ہیں تو افغانستان کی حالت کچھ سنبھلتی ہے۔ اتنی دیر میں بھارت کے اشارے پر ایک اور دبلا پتلا غریب صورت شخص آگے بڑھتا ہے، اس کی آنکھوں میں پاکستان کے لیے نفرت کا سمندر موجزن ہے، یہ بنگہ دیش ہے پاکستان کا کٹا ہوا بازو، وہ پاکستان کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، اس نے ہمیشہ میرے اور بھارت کے ساتھ زیادتی کی ہے. یہ ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے، ہمارا خطہ اسی کی وجہ سے آج جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے، اب بھی اگر دنیا نے اس کو لگام نہ دی تو پھر ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔
پاکستان بےبسی سے اردگرد دیکھتا ہے کہ شاید کوئی اس کے حق میں بھی بولے، چین چند قدم چل کے پاکستان کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ امریکہ سگار کا ایک طویل کش لگا کے اپنی عینک اتار کے صاف کرتا ہے اور پاکستان کی طرف انگلی اٹھا کے کہتا ہے دیکھو میاں، یہاں رہنا ہے تو شرافت سے رہو، میں جانتا ہوں تم اتنے برے نہیں ہو تمھاری بھی مجبوریاں ہیں، یاروں کے یار ہو، ہماری پیسنے کی جگہ خون بہاتے رہے ہو پر دیکھو دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں، یہ بھارت، افغانستان اور تمھارا برادر ایران یہ ہمسائے ہیں تمھارے، ان کے ساتھ بیٹھو، ان کے تحفظات سنو، ان کو دور کرو، راضی کرو یار ان کو، یہ کہہ کے امریکہ تھوڑا آگے بڑھ کے پاکستان کے دونوں گالوں کو اپنے دیو قامت ہتھلیاں میں لے کے سرگوشی کرتا ہے، میں بھی مجبور ہوں میری جان۔ آئی مین بزنس پھر پاکستان کو آنکھ مار کے آگے بڑھ جاتا ہے، بیشتر ممالک بھی امریکہ کے ساتھ چلے جاتے ہیں، بس پاکستان اور بھارت وہی کھڑے رہتے ہیں، بھارت کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک ہے، وہ ایک تمسخر انگیز مسکراہٹ سے پاکستان کو سر سے پائوں تک دیکھتا ہے، پھر منہ سے چخ چخ کی آواز نکالتے ہوئے جیب سے لائٹر نکال کر پاکستان کی شرٹ کو آگ لگانا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تم کیا کر رہے ہو، پاکستان درد سے چلاتا ہے، یہ دیکھو یہ بھارت کیا کر رہا ہے، یہ دیکھو لیکن کوئی بھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا، جو لوگ دیکھتے ہیں وہ دیکھ کے بھی منہ پھیر لیتے ہیں. پاکستان بھارت سے لائٹر چھین لیتا ہے اور اسے دھکا دے کر خود سے دور ہٹاتا ہے اور اپنے کپڑوں پر لگی آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور بھارت قہہقے لگاتا ہوا اپنے حواریوں کے ساتھ وہاں سے چلا جاتا ہے۔
سپاٹ چہرے والا چین پاکستان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے، دیکھو دوست! یہ دنیا ایک جنگل کی طرح ہے، یہاں طاقت اور مفادات کی زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے، میرا مشورہ ہے کہ تب تک اپنے دشمن کو نظر انداز کرنا سیکھو جب تک تم ان کا منہ توڑنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ یہ کہتے ہوئے چین پاکستان کو گلے لگاتا ہے اور چپکے سے کچھ پیسے اور اسلحہ اس کی جیب میں منتقل کر دیتا ہے۔ چین کے جانے کے بعد پاکستان اردگرد کا جائزہ لیتا ہے، چوپال کافی حد تک ویران ہو چکا ہے، پاکستان ایک میز سے بچا ہوا ڈرئی فروٹ اُٹھاتا ہے اور اسے کھاتا ہوا چوپال سے نکل جاتا ہے.

Comments

Click here to post a comment