ہوم << ایک سمارٹ فون کی کہانی - ریحان اصغٍر سید

ایک سمارٹ فون کی کہانی - ریحان اصغٍر سید

میں ایک سمارٹ فون ہوں جو آپ سے مخاطب ہے۔ میں نے اپنی چند سالہ زندگی میں انسانوں کے اتنے روپ دیکھے ہیں کہ میں شکر گزار ہوں کہ میں کوئی انسان نہیں ہوں۔ میرے اولین مالک کا نام مورس تھا۔ وہ نیویارک کا باسی ایک روایتی کاروباری شخص تھا۔ اس نے مجھ میں اپنے کاروبار سے متعلقہ اپیس انسٹال کر رکھی تھیں، وہ ان میں مگن رہتا اور میں چپکے چپکے انٹرنیٹ کے ذریعے انسانوں اور اس دنیا کے بارے میں جانتا رہتا۔ میرا اور مورس کا ساتھ بس چند ہفتوں پر ہی محیط تھا، ایک ویک اینڈ کی شام مورس اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک پارٹی میں تھا۔ اس دن مورس نے معمول سے کچھ زیادہ ہی پی لی تھی۔ اس لیے اس نے ٹیکسی کے ذریعے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد نشے میں دھت مورس سو گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور بیک ویو مرر سے مورس کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ میں سیٹ پر پڑا اپنی آنکھ یعنی کیمرے سے یہ سب دیکھ رہا تھا، میرا نیوگیشن بتا رہا تھا کہ ٹیکسی غلط راستے پر جا رہی ہے پر میں اپنے مالک کو خبردار نہیں کر سکتا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ایک ویرانے میں گاڑی روک کے مورس کو گھیسٹ کے نیچھے پھینکا۔ اس کا بٹوا نکال کر اپنی جیب میں ڈالا، اور مجھے اٹھا کے ٹیکسی لے کر روانہ ہو گیا۔
ٹیکسی ڈرائیور اب میرا نیا مالک تھا. اس نے مورس کی سم کو نکال پھینکا اور اپنی سم ڈال لی۔ وہ ایک پاکستانی تھا اور اس کا نام اکبر تھا۔ وہ مجھ سے پاکستان کالز کرتا تو میں اس کی باتیں سنتا رہتا۔ اکبر ایک دھوکے باز، جھوٹا، بدنیت اور دوغلا شخص تھا۔ وہ اکثر ویک اینڈ پر نشے میں دھت سواریوں سے سامان چھین لیتا، ان سے مارپیٹ کرتا، وہ خود بھی شراب پیتا اور بری عورتوں کی صحبت میں وقت گزارتا. اکبر کی پاکستان میں ایک بیوی اور تین بچے تھے وہ اپنی بیوی کو اپنے بچوں کی اسلام کے مطابق تربیت کرنے پر زور دیتا۔ میں نے اکبر سے اسلام کا نام سنا تو انٹرنیٹ پر اسلام سے معتلق مواد پڑھنا شروع کیا. میں نے قرآن، اور اس کی تفاسیر، احادیث کی ساری کتب اور سیرتﷺ کی ساری کتب پڑھ ڈالیں. یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں تھا. سارا کچھ پڑھنے کے بعد میں اس نیتجے پر پہنچا کے اکبر کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آخر ایک دن اکبر کی بیوی نے اس سے نئے سیل فون کی فرمائش کی تو اکبر نے مجھے ایک پاکستان جانے والے دوست کے ساتھ پاکستان بھیج دیا۔ اب اکبر کی بیوی نازیہ میری نئی مالکن تھی۔ نازیہ سے میرا جو تعارف تھا، فون پر میں نے اس کی جو باتیں سنی تھیں، میں نے اسے اس سے بالکل الٹ پایا۔ مجھے جلد ہی پتہ چل گیا کہ اس کے اپنے خاوند کے علاوہ کئی یارانے ہیں، وہ اپنے دوستوں پر اپنے خاوند کی کمائی بے دریغ اُڑاتی ہے، اور گھنٹوں ان سے فون پر باتیں کرتی ہے. اس کا سلوک اکبر کے بوڑھے والدین سے بھی اچھا نہیں تھا. سچ تو یہ ہے کہ مجھے نازیہ سے گھن آنے لگی تھی.
آخر کچھ مہینے بعد میری نازیہ سے تب جان چھوٹی جب ایک تقریب سے ایک لڑکی نے نازیہ کے بیگ سے مجھے نکال کر چھپا لیا۔ اب وہ میری نئی مالکن تھی. اس کا نام عظمی تھا. وہ ایک کالج کی طالبہ تھی۔ عظمی فیس بک کی شیدائی تھی، وہ جب فیس بک پر حق سچ اور کردار کی بلندی کی بات کرتی تو میرا دل کرتا اسے جھانپڑ مار دوں۔ ایک دن عظمی مجھے ایک سیل فون کی دوکان پر لے گئی، وہاں دکاندار نے مجھے بےدردی سے چیک کیا اور عظمی کو کچھ پیسے دے کر روانہ کر دیا اور مجھے شوکیس میں دوسرے فونز کے ساتھ رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک گاہک آیا، اس نے مجھے نکلوایا اور میرے فنکشن چیک کرنا شروع ہو گیا، وہ چھوٹی چھوٹی داڑھی والا لڑکا کسی یونیورسٹی کا طالب علم لگ رہا تھا، اس کا نام ہاشم تھا. ہاشم نے مجھے خرید لیا، میں نے دعا کی کہ ہاشم انسان کا بچہ نکلے۔ لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی، ہاشم اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، اس کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کے بیٹے کو شہر اعلی تعلیم کے لیے بھیجا تھا لیکن ہاشم سب کچھ کر رہا تھا، بس تعلیم حاصل نہیں کررہا تھا. وہ حیلے بہانے سے گھر سے اضافی پیسے منگواتا رہتا اور عیاشیوں میں ضائع کر دیتا. ہاشم کی کئی گرل فرینڈز تھیں، وہ منشیات بھی استعمال کرتا تھا. آخر ایک دن دو لڑکوں نے اسلحے کے زور پر مجھے ہاشم سے چھین لیا اور میں دوبارہ سیل فونز کی دکان پر پہنچ گیا۔
دکان سے مجھے ایک زن مرید خاوند نے خرید کر اپنی بیوی کو دان کر دیا. وہ سارا دن اپنی ماں اور بہنوں کو کالز کر کے اپنے سسرال والوں کی غیبتیں کرتیں اور نئی سازشوں کی پلاننگ کرتی۔ میں برے طریقے سے فیڈ اپ ہو چکا تھا اور دعا کر رہا تھا یااللہ مجھے کسی نیک انسان سے ملا دے، آخر کار میں بک کر ایک امام مسجد صاحب کے پاس پہنچ گیا، اب میں بہت خوش تھا لیکن جلد ہی میری خوشی غارت ہو گئی. مولوی صاحب کو غیبت کا بہت چسکہ تھا، پہلے ایک دوست کو فون کر کے دوسرے کی برائیاں کرتے، پھر دوسرے کو فون کر کے پہلے کی برائیاں کرتے، اکثر اپنی لوکیشن کے بارے میں جھوٹ بولتے، مسجد کے علاوہ نماز کے پاس بھی نہ جاتے اور کئی دفعہ تو بغیر وضو کے بھی نماز پڑھا دیتے. جلد ہی میری سیلم فطرت مولوی صاحب سے بیزار ہو گئی. میں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، دکاندار غرض ہر مکتبہ فکر شخص کے پاس رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی ہی انسان خطا کا پتلا ہے۔
آج کل میں شاہ جی کے پاس ہوں، شاہ جی بھی بندہ تو دو نمبر ہی ہے پر دل کا برا نہیں ہے. میرے کہنے پر میری کہانی پوسٹ کر رہا ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • سب سے مزیدار بات
    ’’آج کل میں شاہ جی کے پاس ہوں، شاہ جی بھی بندہ تو دو نمبر ہی ہے پر دل کا برا نہیں ہے. میرے کہنے پر میری کہانی پوسٹ کر رہا ہے۔‘‘
    بہت اعلیٰ
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ