ہوم << والد کے ساتھ سلوک اور بدلتے ایام - محمد مبین امجد

والد کے ساتھ سلوک اور بدلتے ایام - محمد مبین امجد

اس نے بوسیدہ کواڑ پہ لاغر ہاتھ کا بوجھ ڈالا تو دروازہ چرچراتے ہوئے کھل گیا۔ وہ اس وقت ایک سرونٹ کوارٹر میں کھڑا تھا۔ سرونٹ کوارٹر، ایک عظیم الشان حویلی سے ملحقہ اب ایک بھوت بنگلا بنا ہوا تھا۔ اسی سال کی عمر میں اب وہ خود بھی تو ایک بھوت بن چکا تھا، لاغر، کمزور اور تنہائی کا مارا بھوت۔
وہ تنہائی، جس سے وہ آشنا نہ تھا کہ ساری عمر ایک ہجوم اس کے گرد رہا تھا مگر اس عمر میں وہ تنہائی کا شکار تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ اس کا کوئی خاندان نہیں تھا، اولاد نہیں تھی۔ سب کچھ تھا۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، اور اب تو وہ پڑدادا بھی بن چکا تھا۔ تو پھر یہ تنہائی۔؟
وجہ مگر یہ تھی کہ اس نے بھی آج سے چالیس سال قبل اپنے باپ کو تنہائی کی سزا سنائی تھی۔ اس نے بھی صرف اس وجہ سے کہ ابا کھانستا بہت ہے، اسے اس کوارٹر میں شفٹ کر دیا تھا۔
کوارٹر، اس کوارٹر میں کل تین کمرے تھے، دو میں فالتو سامان اور کاٹھ کباڑ جبکہ تیسرے میں وہ خود پڑا رہتا تھا، وہ خود بھی تو اب کاٹھ کبار کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ جتنا فائدہ اس کی اولاد اس سے اٹھا سکتی تھی، اٹھا چکی تھی۔ اب وہ ان پر بوجھ تھا۔ وقت کی بساط پر ایک پٹا ہوا مہرہ جسے اس کے گھر والوں نے ایک بازی ہارنے والے کی طرح اس ڈبے میں پھینک دیا۔ اس کی چارپائی صحن میں بچھی رہتی۔ ویسے تو بستر آرام کے لیے ہوتا ہے مگر کہتے ہیں کہ اس عمر میں جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، دور دور رہتے ہیں تو نیند بھی پرائی ہوجاتی ہے، اسی لیے نیند بھی اب اس کی پلکوں پر کبھی کبھی دستک دیتی ہے، اکثر راتیں جگراتے میں ہی گذر جاتی ہیں۔
آج بھی وہ چارپائی پر لیٹا آسمان کو تک رہا ہے۔ آسمان پر تارے مدھم لو کے ساتھ جل رہے ہیں۔ تاروں کی روشنی بھی شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی آنکھوں کی طرح مدھم ہو گئی ہے۔ اسے کم کم دکھتا ہے۔ چارپائی پہ لیٹتے ہوئے اس نے دھندلے شیشوں والی عینک بھی اتار دی تھی، شاید اس لیے بھی تاروں کی روشنی کم نظر آرہی تھی۔ اس نے کروٹ بدلی تو بری طرح سے چونک گیا۔ وہ ہیولا آج بھی اسے سو واٹ بلب کی پیلی روشنی میں بیٹھا نظر آیا۔ اس کوارٹر کی قید تنہائی میں، جہاں اب نوکروں میں سے بھی اب ایک ہی نوکر آیا کرتا تھا، وہ ہیولا اس کی تنہائی بانٹنے پچھلے چند دنوں سے آرہا تھا۔ اس نے عینک لگا کر غور سے دیکھا تو وہ اس کا ہم شکل ہی تھا۔ اس کے قریب جانے پر اس نے جانا کہ یہ تو اس کا باپ ہی ہے، جو اس سے پہلے اس کوارٹر کا مکین تھا، جسے خود اس نے آج سے چالیس سال قبل اس کوارٹر میں ڈال دیا تھا۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ ہیولا غائب ہو گیا، دروازہ کھولنے اور آنے والا شاید اس کا بیٹا تھا۔ بیٹا، جوان بیٹا، پولیس آفیسر، ایک سٹیٹس اور خوبصورت پرسنالٹی رکھنے والا، مگر یہ آج اس کی کمر جھکی ہوئی کیوں ہے؟ وہ لاٹھی ٹیکے کیوں آرہا ہے۔؟ اوہ اس نے تو کپڑے بھی پھٹے پرانے پہنے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی دھندلے شیشوں والی عینک سے مجھے گھور کیوں رہا ہے؟ اوہو کیا ہوگیا ہے مجھے، یہ تو اچھا خاصا ہے۔ مجھے ہی وہم ہوا ہے۔ وہم، مگر یہ وہم نہیں بلکہ یہ کوارٹر اس کے لیے ایک ٹائم مشین بن چکا ہے، جس میں اسے کبھی چالیس سال قبل کے واقعات دکھائی پڑتے ہیں تو کبھی چالیس سال آگے کے واقعات دکھائی دے رہے ہیں۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس کی عملی تفسیر اسی کو کہتے ہیں.

Comments

Click here to post a comment