ہوم << حرم پاک سے کشمیر کا نوحہ - اسری غوری

حرم پاک سے کشمیر کا نوحہ - اسری غوری

اسری غوری ”دنیا جان ہی نہیں سکتی جو کچھ ہم پر بیت رہی ہے“
وہ اک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولیں.
یہ محض الفاظ نہیں بلکہ دو صدیوں سے اذیتوں میں کاٹی ہر ساعت کا چھلکتا دکھ تھا جو ان کے چہرے پر پڑی لکیروں سے لے کر ان کا ساتھ چھوڑتے ٹوٹے لفظوں تک سے عیاں ہو رہا تھا.
میں نے ایک لحاظ سے امید اور دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ برہان شہید نے تو تحریک آزادی کو پھر سے زندہ کردیا. برہان کا نام سن سنتے ہی ان کے غمزدہ چہرے پر اک دم خوشی کی لہر دوڑ گئی اور بولیں اک برہان چلاگیا ہزاروں تیار کر گیا.
میرے ساتھ حرم میں نماز عصر کا انتظار کرتی وہ سری نگر کی رہائشی تھیں. کہنے لگیں کہ دنیا کو کیا خبر کہ ہم پر کیا بیت رہی ہے. ہم محصور ہیں، کھانا، خوراک روزمرہ کا سامان تک نہیں پہنچنے دیا جاتا، مریض دوائیوں کے بغیر ہی مرجاتے ہیں، بچے اسکول کالجوں میں نہیں جاسکتے، ہر طرف انڈین فوجی درندے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں.
آزادی کی نعمت کیا ہے، اہمیت کیا ہے؟ کوئی ہم سے آ کر پوچھے؟
میں جو اپنے پاس سوالوں کے انبار لیے ہوتی ہوں، آج سارے سوال جیسے کھو گئے تھے، لفظ جیسے کہیں منہ چھپائے سسکیاں لے رہے تھے، میں بس خالی خالی نگاہوں سے ان کے چہرے پر درج برسوں کی داستان غم پڑھنے اور سمجھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی، مگر بھلا برسوں کی رقم دکھ بیتیاں چند لمحوں میں پڑھی جاسکتی ہیں؟
مجھ میں سکت نہیں تھی کہ کوئی سوال کروں.
نماز شروع ہوچکی تھی، سجدوں میں التجائیں تھیں، رب سے فریاد تھی اور بس اشک تھے. بس یہی کچھ تھا پاس جو نذر کر آئی.
یا رب بس اتنی التجا ہے میری
یوں ان کے دکھوں کا تو مداوا کر دے
جنت کشمیر کو پھر جنت کردے