ہوم << سوات کی اونی صنعت - عادل انعام

سوات کی اونی صنعت - عادل انعام

سوات کا اونی دُھسہّ اور کھدر انتہائی مشہور ہے، یہی وجہ ہے کہ لاہور میں بننے والا دُھسہّ یا چادر بنانے والا بھی اس پہ سواتی دُھسہّ یا چادر لکھ کر اسے فروخت کرتا ہے اور کراچی میں بننے والے کھدر پر بھی، سواتی کھدر کی مُہر لگانا نہیں بھولا جاتا.
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور اس سے وابستہ سرمایہ دار اس پہ سرمایہ کاری کریں تو اس صنعت کو ترقی مل سکتی ہے. فوری طور پر سوات میں ایک تھریڈّ پلانٹ یعنی دھاگہ بنانے والی فیکٹری لگائی جائے، جس کے کئی فوائد ہوں گے.
ایک تو یہ کہ یہاں کی مقامی صنعت کو معیاری دھاگہ سستے داموں ملے گا، اور اُس کا معیار کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، کاٹیج انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوگا اور کپڑا بننے والے سارے پاکستان سے یہاں دھاگہ لینے آئیں گے، مصنوعی دھاگہ کیونکہ ایکریلک سے بنتا ہے، خیبر پختونخوا کرک میں پٹرولیم پلانٹ لگا رہا ہے، اُس کا خام مال یقیناً کہیں نہ کہیں تو کھپے گا، تو کیوّں نہ اپنے ہی گھر میں استعمال کیا جائے.اس سے صوبے کو زیادہ سے زیادہ آمدنی بھی ہوگی اور معیار کی بدولت دُنیا میں اس کا نام بھی ہوگا. لارنسّ پُور اس کی ایک مثال ہے. دنیا اس کی فائن کوالٹی کی دلدادہ ہے، سوات کا نام بھی ویسے ہی دنیا میں معروف ہو سکتا ہے.
دوسرا یہ کہ پیور میں ووُل کے لیے بھی یہی علاقہ اپنی پہچان بناتا نظر آتا ہے، چترالی پٹی مشہور ہے، اُسے بھی فائن کیا جاسکتا ہے، علاقے میں لاکھوں بھیڑیں ہیں تو اُون کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا.
تیسرا یہ کہ تین شفٹوں میں تقریبا 60 ہزار لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا. صوبے کو ہی نہیں پورے ملک کو اس پلانٹ کا فائدہ ہوگا.
اگر اس کو مزید ترقی دینا چاہیں تو یہاں ویونگ یعنی بُنائی کی مشینیں لگائی جا سکتی ہیں، فنشنگ اور ڈائنگ مشینیں بھی ساتھ لگائی جا سکتی ہیں کیونکہ سوات کا پانی کھارا نہیں ہے اور یہاں پر کپڑے کی رنگائی انتہائی اعلیٰ معیار کی ہو سکتی ہے. اگر صرف تھریڈّ پلانٹ لگایا جائے تو اس پر 12 سے 15 ارب روپے کا خرچ ہوگا، مگر ایک سال میں ہی یہ خرچ پورا کیا جا سکے گا.
اگر ایسا ہو جائے تو یہ ملازمین کے اعتبار سے سب سے بڑا ادارہ بن سکتا ہے، کسی وفاقی ادارے میں بھی اتنے لوگ کام نہیں کرتے ہوں گے جتنے ان تین اکٹھے اور مُلحقہ پراجیکٹ پہ کر سکتے ہیں، یعنی 60 ہزار دھاگے پر، / 20 ہزار نٹنگ+ویونگ، اور 20 ہزار فنشنگ پر، یہ ایک لاکھ افراد نہیں ایک لاکھ گھرانے بنتے ہیں، یعنی لاکھوں لوگ اس پراجیکٹ سے خُوشحال ہوں گے. اگر یہ پراجیکٹ کام کریں تو صوبے کی سالانہ آمدنی میں بیش بہا اضافہ ہو سکتا ہے.