ہوم << بابا جی کا کتا - خرم انصاری

بابا جی کا کتا - خرم انصاری

خرم ہمارے گھر کے سامنے میرے ابو کے چچا کا گھر ہے، جن کو ہم بابا جی، نانا جی بلاتے ہیں، تھوڑے مست ملنگ ٹائپ کے ہیں وہ لیکن تمام بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں، چاہے وہ ہم ہوں یا ہماری اولاد.
چند ماہ پہلے ہماری گلی میں ایک کتے کا پلا اپنی ماں سے بچھڑ کر آ گیا، اب بچہ چاہے انسان کا ہو یا جانور کا، ہوتا تو بچہ ہی ہے! بےچارہ بھوکا پیاسا بھی تھا، محلے کے بچے خاص طور پر محسن اسے تنگ کر رہے تھے، بابا جی کو آواز آئی، باہر آئے دیکھا کہ اس بےزبان کو بچے تنگ کر رہے ہیں، بچوں کو بھگایا اور اس پلے کو اندر پلاٹ میں لے گئے، اس کو پانی دیا پھر دودھ دیا، کچھ دیر تک روٹی کے ٹکڑے ڈالے، قصہ مختصر وہ پلا وہیں پر رہنے لگا. اس کا تعلق کسی اچھی نسل سے تو تھا نہیں، آوارہ نسل سے تھا، پھر بھی بابا جی نے اسے پالنا شروع کر دیا، لیکن صرف پالا، اس کو کچھ سکھایا نہیں، اس کا تھوڑا نقصان یہ ہوا کہ اس نے ایک دفعہ نانی اماں کو پنجہ مار دیا، ہماری گلی میں بچوں کے پیچھے بھونکنا شروع کر دیا، لیکن رات کو وہ ہماری گلی کی حفاظت کرتا تھا.
لیکن حد اس دن ہوئی جب اس نے بابا جی کو کاٹا جب وہ اس کو کھانے کو کچھ ڈال رہے تھے. بابا جی کو انجکشن لگوانے پڑے، ان کے بیٹے کو تھوڑا غصہ آیا تو انھوں نے روم کولر ڈلیوری والوں کے ذریعے اسے وہاں سے کسی ناواقف جگہ پر بجھوا دیا. یہاں تک تو تھی اس پلے، کتے کی تھوڑی سی کہانی، جو شاید آپ کو عام اور فضول سی لگی ہو، لیکن اب میں اصل پوائنٹ پر آتا ہوں.
کتے کو بجھوا دیا گیا تو تقریباً سب نے کہا کہ جان چھوٹی اس سے، بہت تنگ کیا ہوا تھا اس کتے نے، لیکن بابا جی اداس تھے. ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد وہ کتا خود بخود واپس آ گیا. کمزور ہو گیا تھا، لیکن آ کر بابا جی کے دروازے پر بیٹھ گیا جیسے معافی مانگ رہا ہو. بابا جی نے اسے دوبارہ قبول تو کر لیا لیکن اس پلاٹ کا دروازہ اس کے لیے نہ کھولا. اس کے کھانے پینے کے برتن وہیں باہر ہماری چھوٹی گلی میں رکھ دیے، اب وہ بابا جی کا کتا دن میں پورے محلے میں گشت کرتا ہے، رات کو ہماری چھوٹی گلی کی حفاظت کرتا ہے. اب ہم پر یا ہمارے بچوں پر بھونکتا بھی نہیں ہے، پیچھے بھی نہیں بھاگتا. جیسے اس کو سب کی پہچان ہو گئی ہے.
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک آوارہ نسل کا کتا ہے، جس سے بابا جی نے کچھ عرصہ رحم کا رویہ رکھا، اس نے بابا جی کو تکلیف دی، پھر بھی بابا جی نے اس کو سزا نہیں دی، ان کے بیٹے نے دی سزا، وہ اپنی سزا بھگت کے واپس وہیں آیا اور پہلے سے زیادہ وفاداری کرنے لگا، اور کر رہا ہے.
اور ہم انسان ہیں، اشرف المخلوقات، اپنی نسل کے بارے میں ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں زندگی برباد کر دیتے ہیں، لیکن اس ذات پاک سے وفا کا کوئی خیال نہیں آیا جو ہمارے پیدا ہونے سے مرنے تک ہماری ہر ضرورت کو بغیر کہے بھی پوری کر دیتا ہے، اگر وہ کبھی تھوڑی سی سزا بھی دے دے تو ایسے واویلا مچا دیتے ہیں کہ معافی. کچھ تو اس بابا جی کے کتے سے سیکھ لیں.

Comments

Click here to post a comment