ہوم << گو نواز گو اور پاکستان مردہ باد میں فرق - ارمغان احمد

گو نواز گو اور پاکستان مردہ باد میں فرق - ارمغان احمد

ایک دوست نے کسی صاحب کی کوئی پوسٹ شیئر کی ہوئی تھی۔ پوسٹ دلچسپ لگی تو ان صاحب کی وال پر مزید پوسٹس پر بھی نظر پڑی۔ نام تو اب مجھے ان کا یاد نہیں ہے، ہوتا بھی تو نا لیتا کیونکہ میری حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی محترم دوست کا نام لیے بغیر محض خیالات پر گفتگو ہو، شخصیت پر نہیں۔ خیر ان کی پوسٹ کچھ یوں تھی، ”گو نواز گو اور پاکستان مردہ باد میں کیا فرق ہے؟“ اس کے بعد ان کی کافی لمبی تحاریر تھیں جو کئی قسطوں پر محیط تھیں۔
ان کے پورے مقدمے کا خلاصہ نیچے پیش ہے
1۔ حکومت اور ریاست میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ نواز شریف صاحب کے خلاف بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کے خلاف بات کرنا۔
3۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ہے۔
4۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اگر اسلام کو پاکستان کا مذہب قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانونی طور پر پارلیمنٹ کو اسلام سے برتر ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ تمام چیزیں پڑھ کر مجھے دکھ ہوا۔ دکھ اس لیے ہوا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان ایسے ہی کچھ بہانوں کی بنا پر ریاست پاکستان سے لڑنے اور اپنی دہشت گردی کو جائز قرار دیتی تھی۔ یہ صاحب جانے یا انجانے میں ریاست پاکستان کے دشمنوں کا بیانیہ مضبوط کر رہے ہیں۔ اور میں آج جو کچھ بھی ہوں، اللہ کے بعد، والدین کی دعاؤں، محنت اور پاکستان کی وجہ سے ہوں۔ اس لیے باوجود اس کے کہ قانون میری فیلڈ نہیں، پھر بھی بطور ایک مبتدی جو باتیں مجھے پتا ہیں، ان کی بنیاد پر ان شکوک کا ازالہ کرنا مجھ پر فرض ہے تا کہ اگر کوئی دوست شبہات کا شکار ہیں تو وہ دور ہو سکیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ”گو نواز گو“ اور ”پاکستان مردہ باد“ میں فرق واضح ہو جائے۔ یاد رہے کہ میں کوئی تقابل نہیں کر رہا بلکہ مثال پیش کر رہا ہوں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، بیعت کرنے سے انکار کیا تھا لیکن علم بغاوت بلند نہیں کیا تھا۔ بغاوت یا خروج اور احتجاج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر حضرت امام حسین رض کا مقصد خروج یا بغاوت ہوتا تو وہ اپنے خانوادے کے ساتھ نہ جاتے بلکہ مدینہ میں ہی ٹھہرے رہتے اور انہیں خاصی فوجی قوت وہیں حاصل ہو سکتی تھی۔ ہاں جب ان پر لشکر کشی کر دی گئی تو پھر دفاع ان کا حق تھا جو انہوں نے پوری بہادری اور استقامت کے ساتھ کیا۔ دوسری طرف جن خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی، اپنی فوج بنائی، ان کو جہنم رسید کیا گیا۔ اس لیے پرامن انداز میں وقت کے ظالم حکمران کے خلاف بغیر خروج کیے، بغیر بغاوت کیے، بغیر فوج کشی کیے آواز اٹھانا افضل ترین جہاد ہے۔ یہ الگ بات کہ کوئی بھی حاکم خود کو ظالم تسلیم کرتا ہے نہ اس کے حواری۔ اس لیے یہ فیصلہ اللہ ہی کرے گا۔ ظاہری طور پر ہم جو چیز دیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ لشکر کشی نہ کی گئی ہو، پرامن رہیں تو احتجاج جیسا کہ ”گو نواز گو“ ہرگز ریاست کے خلاف بغاوت نہیں ہے البتہ ریاست کو ہی گالی دینا، اسے مردہ باد کہنا، اس کی فوج اور پولیس کو پرتشدد دھمکیاں دینا، حملے کرنا، یہ سب بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یاد رہے کہ یزید اپنی طرف سے اس وقت ”خلیفہ“ ہی تھا اور اس کے ساتھ وہ ”قباحتیں“ بھی نہیں تھیں جو آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے نام پر پاکستان پر ہیں۔ امید ہے فرق واضح ہو گیا ہو گا۔
ان کے بقیہ مضامین مختصر الفاظ میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے نظام کے تحت پاکستان کا آئین شریعت سے بالاتر ہے، اس کے لیے تاویل وہ یہ لاتے ہیں کہ اگر پاکستانی پارلیمنٹ یہ نہ کرتی تو کیا اسلامی قوانین پاکستان میں نافذ نہ ہوتے؟ ان کی اس منطق کا جواب میں ان کی ہی پوسٹ پر کسی کا کیا گیا کمنٹ کاپی پیسٹ کر کے کروں گا۔
”ایک صاحب کا سوال
شریعت کی بالا دستی پر مبنی نظام کا فیصلہ اگر ہم کریں گے تو آپ ہی کے طے کردہ اصول کے مطابق شریعت بالا دست ہوئی کہ ہم؟
ہمارے ممدوح کا جواب
ہم شریعت کی بالادستی کا فیصلہ کرنے والے نہیں بلکہ شریعت کی بالادستی تسلیم کرنے والے ہیں۔
جواب الجواب
یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم (پاکستان کی عوام نے) شریعت کی بالادستی بذریعہ پارلیمنٹ تسلیم کی ہے.“
آئیے ان کی اس منطق کو مزید سٹڈی کریں۔ آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ شریعت نافذ ہو کہ نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ بالاتر بن گئی شریعت سے، اس لیے یہ ناجائز ہے۔ شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر ہونا چاہیے۔ حضور آپ کی اس منطق کے مطابق تو ہر وہ شخص جو اسلام قبول کرتا ہے، وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نبی ہیں، وہ بھی شریعت سے برتر ہو گیا؟ کیا اسلام کو اپنے سچا ہونے کے لیے میری، آپ کی یا اس شخص کی گواہی کی کوئی ضرورت تھی؟ نہیں نا؟ اسی طرح اس زمانے میں جب عوام نے اپنی کوئی رائے دینی ہو، خود پر کوئی بھی قانون تسلیم کرنا ہو تو وہ ووٹ دیتے ہیں، اپنے نمائندے چنتے ہیں، وہ نمائندے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے شریعت کو یا اسلام کو اپنا بالاتر قانون تسلیم کر لیتے ہیں تو اس میں اعتراض کس بات پر ہے؟
مزید آگے چلیں۔ یہ صاحب بالواسطہ فرماتے ہیں کہ پاکستان کا آئین اور پاکستان غیر اسلامی ہیں جبکہ مغرب، لبرلز اور سیکولرز کو سب سے زیادہ تکلیف ہی قرارداد مقاصد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ”اسلامی“ اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر ہے۔ ٹھیک ہے پاکستان کوئی مثالی اسلامی ریاست نہیں مگر جیسے کہ آپ فرما رہے ہیں اتنی کوئی غیراسلامی ریاست بھی نہیں بلکہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان بطور ایک ریاست مجھ اور آپ، ہم دونوں سے زیادہ ہی مسلمان ہے۔ آپ کا بیانیہ تو بالواسطہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو جائز قرار دینے والا ہے۔ پلیز اپنے نکتہ نظر پر پھر غور فرمائیں۔ شکریہ بہت بہت اور اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہو گی غیر ارادی طور پر تو معذرت۔

Comments

Click here to post a comment