ہوم << کراچی سے کرچیوں تک کی داستان - سردار عمران اعظم

کراچی سے کرچیوں تک کی داستان - سردار عمران اعظم

عمران اعظم میرا نام کراچی ہے، میرا وجود پاکستان سے بھی پہلے کا ہے۔ پاکستان کا جنم ہوا تو میں اس کے سینے میں دل بن کر دھڑکنے لگا، میری رگوں سے خون نچڑتا تو پاکستان کی سانسیں چلتیں۔ میں پاکستان کی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی کہلایا تودنیا کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ میرا موازانہ کبھی نیویارک تو کبھی ٹوکیو اور سنگاپور سے کیا جانے لگا۔ دنیا میری ترقی پر رشک کرنے لگی، اندازے لگائے جانے لگے کہ بیس سال بعد میری اٹھان کیسی ہو گی۔ میں نے بھی تفریق مٹا کر پاکستان کے ہر عام و خاص کے لیے اپنی باہیں پھیلا دیں، سب مجھے مسیحا سمجھنے لگے تو میں نے بھی زخموں پر مرہم رکھنے میں کوتاہی نہ کی، پھر یوں ہوا کہ پاکستان کے سینے میں دھڑکتے ہوئے مجھے تیس سال ہوئے تو میری جوانی کو کسی کی نظر لگ گئی۔
ایک مہربان نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور یہاں سے میرا برا وقت شروع ہو گیا۔ وقت گزرا تو جنھیں میں نے اپنی گود میں کھلا کر پالا، وہ میرے ہی وجود کے درپے ہوگئے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے میرے بیٹوں کے دماغ میں قومیت اور حقوق کا زہر بھرا گیا تو بیٹے اپنی ہی ماں کو نوچنے لگے، ہاتھ میں ٹی ٹی پستول اور کلاشنکوف تھما دی گئی تو پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا نہ کلاشنکوف تھمانے والوں نے کوئی حساب کتاب رکھا.
تاک میں بیٹھے دشمنوں نے موقع کو غنیمت جانا اور جو گھر بار لٹا کر پاکستان آئے تھے، انہیں پھر اپنے آغوش میں لے کر میری روشنیاں بجھانے کا ٹاسک دے دیا۔ میری سڑکوں پر خون کے چھینٹے اڑنے لگے، موت بٹنے لگی، میرے سینے پر لاشوں کے اتنے ڈھیر لگے کہ سانسیں اکھڑنے لگیں۔ مر د مومن، مرد حق اللہ کو پیارے ہوئے تو عوامی نمائندوں کو احساس ہوا کہ میں وینٹی لیٹر پر پہنچنے کو ہوں۔ فوری آپریشن نہ کیا گیا تو زخم ناسور بن جائیں گے اور مجھے کاٹ کر پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ میری ایک بےنظیر بیٹی نے میرا آ پریشن کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ سب خرچے کی ذمہ داری بھی اسی نے اٹھائی اور دو معالج بھیج دئیے، ایک کا نام نصیراللہ بابر تو دوسرے کا شعیب سڈل بتایا گیا۔ دونوں نے سر سے پائوں تک میرے چھلنی جسم کا معائنہ کیا اور پھر میرے وجود کی ایسی صفائی کی کہ مجھے قرار آ گیا۔ میں کچھ ہی عرصے میں روبصحت ہوگیا۔ میں خوشی میں چھلانگیں مارنے لگا کہ اب ہمیشہ کے لیے بچ گیا۔ مگر میں غلط تھا، بہت غلط۔
میری غلط فہمی چند ہی سالوں میں دور ہو گئی جب ایک بار پھر 12 اکتوبر 1999ء کو جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ فوجی حکمران نے جہاں ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کیا وہیں میرے قاتل ایک بار پھر دندنانے لگے۔ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا دعوی کیا جانے لگا تو دوسری طرف میرے ساتھ سیاست کے نام پر کھلی دہشت گردی کی اجازت دے دی گئی۔ میں قتل و غارت، بھتہ، اغوا برائے تاوان اور بم دھماکوں اور اسٹریٹ کرائم سمیت ہر برائی کا پھر سے گڑھ بن گیا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ طالبان کتنے بیوقوف ہیں، وہ بھی پہلے کسی سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھتے اور پھر سیاست کے نام پر جو چاہے کرتے۔ سب نے یہی کہنا تھا کہ وہ سیاسی حقیقت ہیں، ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوئی جب 12 مئی کے روز مجھے دن دہاڑے خون میں نہلا دیا گیا اور میرا مسیحا اسلام آباد میں مکے لہرا کر اس فتح کا جشن مناتا رہا۔ ا س دن کے بعد میں نے اپنی سانسیں گننا شروع کر دیں۔ جمہوریت بحالی کا دم درود بھی میرے کسی کام نہ آیا بلکہ اس بار گدھوں کی تعداد پہلے سے کہیں گنا زیادہ ہو کر مجھ پر حملہ آور ہوئی اور گوشت بھی نوچ کر کھا گئے۔ میں ہڈیوں کاپنجر بنا تب قدرت کو جا کر رحم آیا۔ شاید اللہ کے حضور میری قربانی اور صبر کو شرف قبولیت مل گیا ۔
نومبر 2013ء میں مجھے اس حال تک پہنچانے والوں کے قبیلے سے ہی ایک سپہ سالار سامنے آیا۔ اس نے آتے ہی بھانپ لیا کہ مجھے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کر کے چوبیس گھنٹے پوری جانفشانی سے میرا علاج نہ کیا گیا تو میرا بچنا مشکل ہے۔ اس کے حکم پر گدھوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جانے لگا، گدھ چیخے چلائے لیکن اس کے عزم کے آگے ایک نہ چلی تو مجھے بھی قرار آتا گیا۔ میری ہڈیوں پر پھر سے گوشت چڑھنے لگا، میرے چہرے پر پھر سے لالی دکھنے لگی، گدھ دیس چھوڑ کر بھاگنے لگے تو کچھ نہا دھو کر ظلم و زیادتی کا واویلا بھی کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں سازشیں بھی ہوئیں لیکن وہ کسی بھی قیمت پر پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اڑھائی سال کی محنت کے بعد اس نے مجھے پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا کیا لیکن میں اپنے اندر بسے ڈر کو نہ نکال سکا۔ میں سہما ہوا تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی یہ سب کچھ چند دنوں کی بات نہ ہو۔ مجھے ڈرائونے خواب آتے اور میں راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتا مگر پھر قدرت نے ایک اور معجزہ کر دکھایا۔
گدھوں کے سب سے بڑے ٹولے کے مائی باپ کا حقہ پانی بند ہوا تو اس نے اپنے بیرونی آقائوں کے حکم پر میرے ملک، میرے وجود کی ہی نفی کر دی، میرے محافظوں کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے مجھے لہولہان کرنے والوں پر آخری ضرب لگانے میں دیر نہ کی۔ یہ میرے صبر کاصلہ ہے یا بےگناہ باسیوں کے ناحق بہنے والے خون کی فتح ۔ خدا کو میری کون سی ادا پسند آئی میں نہیں جانتا، لیکن مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔ میں کرچیوں سے پھر کراچی بن چکا ہوں۔

Comments

Click here to post a comment