ہوم << مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی - محمد فیصل شہزاد

مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی - محمد فیصل شہزاد

’’جی بیٹا! تو کہاں سے تعلق ہے آپ لوگوں کا؟‘‘
احمد صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا تھا۔
’’جی یہیں کراچی سے، میں سندھی ہوں۔‘‘
’’سندھی.‘‘
احمد صاحب نے بری طرح چونک کر مجھے دیکھا اور میں بھی ہکا بکا علی کو دیکھنے لگا۔
’’یہ کیا مذاق ہے علی؟‘‘
میں نے کسی قدر غصے میں مگر دھیرے سے کہا۔
’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں فیصل بھائی !میں سندھی ہی ہوں بلکہ اول مسلمان ہوں، پھر پاکستانی، پھر سندھی!‘‘
’’مسلمان اور پاکستانی تو ٹھیک ہے مگر تو سندھی کب سے ہوگیا؟ کیوں میری بات خراب کر رہا ہے، اگر شادی نہیں کرنی تھی تو یہاں تک آنے کی ضرورت کیا تھی.‘‘
میں نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہا تھا۔
احمد صاحب جو اچانک سنجیدہ نظر آنے لگے تھے، کہہ اٹھے:
’’بہت معذرت بیٹا! بےشک سندھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر ہماری بٹیا کو تو ایک لفظ سندھی کا نہیں آتا، پھر رسوم و رواج اور ثقافت کے بھی ہزار مسائل ہو جاتے ہیں، آپ لوگوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہماری بٹیا کے لیے کسی بھی مسلمان کا رشتہ آئے، مگر ہم فیصل میاں سے پہلے ہی اس بابت صاف کہہ چکے تھے، آپ برا نہیں منانا مگر…‘‘
انہوں نے رک کر مجھے شکایتی انداز میں دیکھا، مجھے علی پر شدیدغصہ آنے لگا۔
’’مم مگر انکل! بات یہ ہے کہ تھوڑی بہت سندھی مجھے آتی تو ہے، مگر میں سندھی نہیں، اوہ مم میرا مطلب ہے کہ میں سندھی تو ضرور ہوں، کچھ سندھی بول بھی لیتا ہوں، مگر وہ سندھی نہیں ہوں!‘‘
علی نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تو مجھے اس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ ادھر احمد صاحب چہرے پر شدید حیرت کے آثار لیے علی کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے احمد صاحب کو سلام کیا، معذرت چاہی اور تیزی سے علی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک سے باہر نکل آیا۔
باہر آتے ہی اس نے میرے خطرناک ارادے بھانپ کر جلدی سے کہا:
’’ایک منٹ فیصل بھائی جان! آپ لوگ میری بات سمجھ نہیں ر ہے. وہ فلاں دانشور نے فیس بک پر فلسفہ بگھارا تھا کہ آپ سندھ میں پیدا ہوئے ہوتو سندھی ہو، اردو اسپیکنگ یا مہاجر کا ٹائٹل نہ لگاؤ، اپنے آپ کو سندھی کہلواؤ. میں تو اس لیے بولا۔‘‘
’’کیا؟؟ حمق! تو نے ان دانشوروں کی باسی دانش کی وجہ سے مجھے اتنے اچھے پڑوسی کے سامنے شرمندہ کر دیا. ابے ادھر آ. ‘‘ میں اسے اگلی گلی میں لے آیا۔
سامنے میرے بہت پیارے پڑوسی دوست محسن بھائی کھڑے ہوئے تھے. ’’ اب سن‘‘
میں علی کو ان کے پاس لے گیا۔
’’محسن بھائی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سندھی ہو؟‘‘
’’ہائیں…‘‘ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
’’کک کیا کہہ رہے ہو فیصل بھائی! جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں، کوئی بیس سال سے آپ کا پڑوس ہے، اب ہم سندھی ہو گئے سائیں، واہ چھا تو کرے میرا میڈا سائیں‘‘
محسن بھائی نے مزاحیہ انداز میں سندھی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر آپ کون ہو؟‘‘
’’کیا ہوگیا بھائی؟ ہم پنجابی ہیں، پیچھے سے فیصل آباد ی ہیں. کیا آپ ہمارے ساتھ رائیونڈ اجتماع کے بعد ہمارے گاؤں گئے نہیں تھے کیا؟‘‘
اب ان کے چہرے پر الجھن کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔
’’بس ٹھیک ہے.‘‘ میں مسکرایا اور انہیں الجھتا چھوڑ کر علی کا ہاتھ تھامے کونے میں بنے کوئٹہ وال چائے ہوٹل پر چلا گیا۔
’’ہاں عبدالرحمن! میں نے سنا ہے تم سندھی ہو؟‘‘
میں نے چائے بناتے کھلنڈرے سے عبدالرحمن سے پوچھا۔
عبدالرحمن نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر گویا مذاق سمجھتے ہوئے بولا:
’’زڑ خہ منہ کن خرژیش …مچ مچ ٹشن دا ڈغہ … زہ تا سرا مینا کوم پیسل بھائی!‘‘
وہ مخصوص کوئٹہ کے لہجے میں پشتو کے پھول نچھاور کرنے لگا۔
’’آداب آداب میرے چھوٹے خان… میری طرف سے بھی زہ تا سرا مینا کوم…‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
قصہ مختصر سرائیکی خالد اعظم نے سرائیکی ہی کہا. ہزارے وال طاہر عابد نے ہزارے وال کی نسبت ہی بتلائی. اور ادھر علی کا چہرہ برابر رنگ بدل رہا تھا۔
’’دیکھا تو نے یہ سب ہمارے بھائی یہیں پیدا ہوئے، یہ سب سندھی نہیں ہوئے تو کمینے تو کہاں سے سندھی ہو گیا؟‘‘
’’بے شک ہم سندھ میں رہتے ہیں مگر ہمارے جو مہان دانشور دو چار دنوں سے گاہے یہ فلاسفی جھاڑ رہے ہیں ناں کہ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی کہلاؤ، تو بیٹا یہ صرف تمہارے میرے لیے لارے لپے ہیں. ان سے پوچھو، باقی ہمارے دوسری زبان سے نسبت رکھنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی لالی پاپ ہے یا نہیں؟! بیٹا یہاں کی بات تو چھوڑو، خود پنجاب میں رہنے والے سرائیکی بیلٹ کے ساتھی خود کو پنجابی نہیں کہتے. ہزارے وال خود کو پنجابی نہیں کہتے.
ارے پیارے یہ لفظ مہاجر اب صرف پہچان کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ لغوی واصطلاحی طور پر کہ آگے سے یہ جاہلانہ سوال پوچھا جائے کہ اچھا بتاؤ تم نے کب ہجرت کی؟ پھر چلولفظ مہاجر کو چھوڑو، اگر اس سے تکلیف ہوتی ہے تو’اردو اسپیکنگ‘کی اردو انگریزی مخلوط معصوم سی ترکیب سے کیا مسئلہ ہے جسے اب قبول خاص و عام حاصل ہو گیا ہے، مگر دانشور اس پر بھی چیں بجیں ہیں، کس وجہ سے؟ صرف متحدہ جیسی فسطائی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود متحدہ برسوں قبل لفظ مہاجر سے جان چھڑا چکی، جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی!
ڈئیر! قبیلے، علاقے اور زبان پہچان کے لیے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ اور ہزار معاملات میں لوگ علاقہ یا زبان کے بارے میں عام سوال پوچھتے ہی ہیں. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اپنی لسانی پہچان امریکا جا کر بھی برقرار رکھو، پنجابی مسلم سوداگران تنظیمیں بناؤ اور ہم اپنے ہی ملک میں اپنی پہچان تلاشتے رہیں.!
کیا یہ بات سراسر اکرام مسلم کے خلاف نہیں کہ ایک مسلمان جس بات کو پوچھنا چاہ رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے باوجود اپنے فیس بکی دانشوروں کی ہدایت پر مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، سندھی ہوں کی تکرار کرتے رہیں، اور نتیجے میں کنوارے ہی رہ جائیں!
٭٭٭
اس کہانی میں بات بہت وضاحت سے آ گئی. مزید کنفیوژن دور کرنے کے لیے بات کو اس طرح سمجھیے:
دیکھیں اپنی پہچان اور تعارف کے لیے مختلف دائرے ہوتے ہیں. ہر دائرہ پہلے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
٭پہلا دائرہ:
آپ کسی غیر مسلم کے مقابل اپنی پہچان مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں. بس یہی پہچان و تعارف کا سب سے بڑا اور بنیادی دائرہ ہے اور یہی دائرہ دنیا آخرت دونوں کو وسیع ہے. اسی دائرے کا حق ہے کہ اسے اللہ کے شکر کے ساتھ بیان کیا جائے!
٭دوسرا دائرہ:
آپ پاکستان سے باہر ہیں تو آپ دوسرے ملک والوں کے سامنے اپنی وطنیت کی پہچان کروائیں گے، یعنی پاکستانی! یہ دوسرا دائرہ ہے جس میں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان گویا مائنس ہو گئے!
٭تیسرا دائرہ:
آپ پاکستان میں ہیں تو آپ اپنے شہر کے توسط سے اپنی پہچان کرواتے ہیں یعنی لاہوری، کراچی والے، ملتانی، کوئٹہ وال، پشاوری وغیرہ، آپ چاہے کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اپنے شہر کی خوبیاں، اپنے شہر کی تعریف، اپنے شہر پر فخر اور کبھی کبھار اپنے شہر کی وجہ سے تعصب بھی اپنائیں گے، یہ بھول کر کہ آپ پختون ہیں، پنجابی بولتے ہیں یا اردو! یہ ہے پہچان و تعارف کا تیسرا دائرہ اس میں پاکستان کے دوسرے شہر والے گویا مائنس ہو جاتے ہیں۔
٭چوتھا دائرہ:
یہاں آ کر ایک عجیب بات مگر یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں صوبائی پہچان کرانے کا رواج بالکل بھی نہ چل سکا، پاکستان کے اندر اول شہر کی پہچان ہے، اس کے بعد براہ راست زبان کی پہچان ہے!
پنجابی بولنے والے پنجابی اسپیکنگ، سرائیکی بولنے والے سرائیکی اسپیکنگ، سندھی بولنے والے سندھی اسپیکنگ، ہزارہ وال ہزارہ کی زبان بولتے ہیں، پشتو بولنے والے پختون اور اردو بولنے والے اردو اسپیکنگ!
٭ یہ ہے پہچان اور تعارف کا چوتھا دائرہ اس میں دوسری زبان والے مائنس ہو گئے۔
اس سے چھوٹے بھی کئی دائرے ہیں، ذات یا علاقائی وغیرہ کے، جیسے پنجابی بھائیوں میں جٹ اور کھوکھر وغیرہ اور اردو بولنے والوں میں بہاری، دہلی والے، الہ آبادی، حیدرآبادی وغیرہ کے، لیکن انہیں چھوڑیے۔
مندرجہ بالا چار دائرے کسی قسم کے تعصب کے بغیر بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان دائروں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے خلاف کوئی ’نکتہ شناس‘ زبردستی یہ کہے کہ جس صوبے میں رہتے ہو، اس سے اپنی پہچان کروائو تو یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف بات ہے۔
جب ہمارے دفتر کے سرائیکی بھائی جو کراچی میں ہی پیدا ہوئے، اپنی پہچان سرائیکی کہہ کر کراتے ہیں تو ہم بھلا کیوں سندھی کی پہچان کروائیں؟!
٭٭٭

Comments

Click here to post a comment