ہوم << تصوف کی ابتدا اور تاریخ - اویس قرنی

تصوف کی ابتدا اور تاریخ - اویس قرنی

اویس قرنی مجھے سرے سے بات شروع کرنے دیجیے.
جب مجھے غالب کو ایک لفظ میں بیان کرنا پڑے تو کہتا ہوں’’غالب‘‘
اگر مجھے کائنات کو ایک لفظ میں بیان کرنا پڑے تو میرا جواب ہوگا ’’قوت/توانائی‘‘
اللہ تعالیٰ نے توانائی کے تانے بانے سے یہ کائنات اور موجودات تخلیق کیں، اور اپنا ماسٹر پیس (شاہکار) انسان کو قرار دیا. اشرف المخلوقات کہہ لیں یا ماسٹرپیس، اس کی اشرفیت کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ یہ ایک دو نہیں متعدد متضاد عناصر کا (وقتی) اتحاد ہے.
کثافت اور لطافت کے اعتبار سے اسے بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.
1- مادی جسم
2- روح
اور یہ دونوں ہر لحاظ سے مختلف ہیں. لہذا یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ ان دونوں کے قواعد و آئین، ضروریات و اطلاقات بھی مختلف ہیں. لہذا ان کے مطالعے کے لیے علوم بھی مختلف ہی ہوں گے.
کیا آپ نے کبھی کسی ماہر ترین موچی سے فزکس کی ٹیوشن پڑھی ہے؟
کیا آپ کسی ماہر ترین سول انجینئر سے اپنے گردے کا آپریشن کروانا پسند کریں گے؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
(جواب اپنے آپ کو دیجیے)
مادی علوم کا دائرہ کار اور حدود صرف مادیت تک ہے. روحانیت کی طرف قدم بڑھاتے ہی ان کے پر جل جاتے ہیں. لہذا لازم ہے کہ روح اور روحانیات سے متعلق الگ علوم بھی ہوں، کیونکہ جسمانیات پر پی ایچ ڈی کرنے والا انسان روحانی پہلو سے جاہلِ مطلق ہوگا.
اس دنیا میں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علوم کی تعلیم دی. پس پہلے انسان کے ساتھ ہی علم کی بنیادی طور پر دو اقسام بن گئیں.
1- علومِ مادیات
2- علومِ روحانیات
جسم چونکہ مادی ہے، ظاہر بھی ہے، اور اسے ہوم گراؤنڈ کا بھی ایڈوانٹیج حاصل تھا، اس لیے اول دن سے اب تک علومِ مادیات نے خوب ترقی کی. روح عالمِ ارواح سے آئی ہے، مخفی ہے، اور عالمِ خاکی میں اس کی حیثیت ایک پردیسی کی سی ہے.
لیکن دونوں کے درمیان پاور کی جنگ ازل سے جاری ہے. روح غلبہ پاکر جسم کو مطیع کرنا چاہتی ہے، اور جسم مغلوب ہونے کے بجائے خود غلبہ پانے کا خواہشمند ہے. اور ان کا پانی پت یعنی میدانِ جنگ انسان ہے. اس جنگ میں جسم کی کوشش ہے کہ وہ دیگر عناصر کو اپنے ساتھ ملا لے، اور اس عناصری مینڈیٹ کی طاقت سے روح پر غلبہ پا لے. اس لیے اس نے مادی علوم کو ترقی دلوائی. مادی علوم کا سرسری جائزہ لے لیں، واضح ہو جائے گا کہ ہر مادی علم کا مطمح نظر صرف جسم کی خدمت، آسائش، طاقت اور غلبہ ہے. سائنس کی شاخ حیاتیات اور اس کی دو بڑی شاخوں میں سے ایک باٹنی اگر پودوں پر تحقیق کر رہی ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ جو پیداوار بڑھانے کے لیے ہائی برڈ بیج ایجاد ہو رہے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے؟ یہی ناں کہ انسان پیٹ بھرتا رہے اور جسم طاقت ور رہے. زولوجی کو دیکھیں تو وہ جانوروں پر تحقیق کے بہانے کیا کر رہی ہے؟ یہی کہ کون سے جانور کا گوشت کھانے سے جسم کو کتنی طاقت ملے گی. گوشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا کیا طریقہ ہائے کار اختیار کیے جا سکتے ہیں. فزکس اور کیمسٹری کی ایجادات کا نتیجہ دیکھ لیں. سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ سب جسم کی خدمت اور جسم کا غلبہ برقرار رکھنے کی تگ و دو ہے.
اب ذرا روح کے اقدامات دیکھیں.
روح بھی اس جنگ میں غافل نہیں. وہ چاہے جس قدر کمزور کیوں نہ ہو جائے، اس میں ایک جذبہ ایک چنگاری لازمی جاگتی رہتی ہے. وہ چنگاری وہ جذبہ اپنی اصل کی طرف لوٹنے اور لوٹنے سے پہلے کم از کم اپنی اصل سےاپنا رابطہ برقرار رکھنے کا ہے. پاور کی اس جنگ میں روح بھی ہارس ٹریڈنگ کرتی ہے. اپنی طاقت کی بحالی کے لیے اور مزید طاقت پانے کے لیے اس نے بھی علوم وضع کیے. انہیں ہم اپنی آسانی کےلیے روحانیات کہہ لیتے ہیں. جس طرح مادی علوم کا منتہائے مقصود جسم کی آسائش و خدمت و طاقت ہے، اسی طرح روحانی علوم کا منتہائے مقصود روح کی آسائش و خدمت و طاقت ہے.
انسان کے ساتھ ساتھ یہ علوم بھی تاریخ میں سفر کرتے آئے ہیں. جتنا پرانا انسان ہے اتنے ہی پرانے یہ علوم ہیں. متضاد عناصر اور خیر و شر کے مرقع انسان کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی کہ بقول غالب
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
پس انسان کو کنفیوزنگ سے بچانے کےلیے ایک معیار (سٹینڈرڈ) مقرر کردیا گیا، اور اسے دین (راستہ) کا نام دیا گیا کہ جتنا اس راستے پر رہو گے یا اس کے اریب قریب رہو گے، سمجھنا سفر ٹھیک ہو رہا ہے. جتنا اپنے آپ کو اس راستے سے دور ہوتا پاؤ، سمجھنا کہ بھٹکتے جا رہے ہو.
اب یہ بات سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مذہب یا دین چونکہ انسانیت کے لیے آیا، اور انسان صرف جسم ہی نہیں بلکہ جسم و روح پر مشتمل ہے لہذا لازم ہے کہ مذہب جسم اور روح دونوں کا احاطہ کرتا ہو.
اگر وہ جانبدار ہو، صرف روح کو پروموٹ کرتا ہو تو پھر آزمائش تو نہ ہوئی نورا کشتی ہوئی.
اگر وہ جانبدار ہو اور نری جسمانیت کو ہی سپورٹ کرے تو یہ بھی فاؤل پلے ہوا. فکسڈ میچ ہوا.
دونوں صورتوں میں پھر حشر کیسا؟ حساب کتاب کیسا؟
یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سچے مذہب کو لازم ہے کہ وہ روحانیات اور مادیات کا مکمل احاطہ کرتا ہو. یہ کنفیوژن حل کرنے کے بعد اب ہم مذاہب یا دین پر آتے ہیں.
مجھے فنڈامینٹلسٹ کہیے یا شدت پسند مُلا، میرا ماننا ہے کہ اس دنیا میں مذہب یا دین صرف اسلام ہی ہے. باقی سب مننظور وٹو ہیں، فارورڈ بلاک ہیں، جماعت کے اندر جماعت ہیں. کیوں؟
کیونکہ اس دنیا کے پہلے انسان پہلے نبی بھی تھے، اور ان کی نبوت میں یقیناً توحید اور رسالت کا عقیدہ ضرور ہوگا کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں. یہ اسلام کی ابتدا تھی. اور اسلام کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہوئے.
ان کے بعد آنے والا ہر سچا نبی اور رسول توحید کا پیغام سنانے ہی آیا. فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں پچھلے تمام انبیاء پر ایمان لانے کے ساتھ موجودہ نبی کی نبوت اور رسالت کا اقرار بھی ضروری تھا. یہاں تک کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم تشریف لائے. ان کی شان یہ ہے کہ اللہ نے ان پر اپنے پسندیدہ دین اسلام کی تکمیل فرما کر قرآن مجید میں اس کا واضح اعلان فرما دیا. ان پر نہ صرف دین کی تکمیل ہوگئی بلکہ ان پر ازل سے چلے آ رہے علوم کے سفر کی تکمیل ہو گئی.
حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک علوم اور زبانوں کا سفر سریانی سے عربی تک جاری رہا. زبانوں کے فرق سے علوم کے ناموں میں بھی فرق آتا رہا. روحانیات کو کسی زبان نے سریان کا نام دیا، کسی نے سِریّت (Mysticism) کہا، کسی نے معرفت کہا اور کسی نے روحانیت کہا.
جسم اور روح کی جنگ اب بھی جاری تھی. جسم اور روح کی اس جنگ کے ساتھ ساتھ انسانیت اور علوم کا یہ سفر بھی جاری رہا. تجسس پسند انسان کے لیے بنیادی سوال یہ تھا کہ کون ہوں میں؟ کہاں سےآیا ہوں؟ میرا انجام کیا ہوگا؟ لیکن مزے کی بات یہ کہ یہ سوال صرف انہی انسانوں کے سامنے تھا جن کی روح طاقتور تھی، جن میں روح نے جسم پہ غلبہ پا کر اعضائے رئیسہ دل و دماغ وغیرہ کی تمام تر صلاحیتیں اس سوال کے جواب ڈھونڈنے میں لگا رکھی تھیں. جبکہ جن کا جسم طاقتور تھا، تاریخ گواہ ہے کہ ان کا نصب العین ہمیشہ یہی رہا کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ اس نصب العین کےحاملین نے جسم کے کہنے میں آکر ہمیشہ دنیا میں اندھیر مچائے رکھا. طاقت کی اس حرص کی کوئی حد نہ تھی، لہذا دنیا خاک و خون میں لتھڑی رہی.
جسم کو معلوم تھا کہ وہ خاک سے ہے اور مرنے کے بعد اس نے یہیں رہ جانا ہے لہذا اسے فکر کیونکر ہوتی. فکر میں تو روح گھلی جا رہی تھی کہ میں یہاں کی نہیں ہوں. پس روح نے جن پر غلبہ پا لیا، انہیں اس اضطرابِ حیات کا معمہ سلجھانے پہ لگا دیا کہ:
’’یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا‘‘
ڈھونڈنے والے صاحبانِ نظر نے اس کا جواب کا پہلا سرا ڈھونڈ نکالا کہ ’’کائنات کی تمام اشیاء حُسنِ ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں.‘‘ اس کشش کو انسان نے عشق کا نام دیا. اور جواب کا دوسرا سرا بھی بالاخر دریافت کر لیا گیا: ’’روح عالمِ ہست و بود میں آکر مادے کی اسیر ہو گئی ہے. اور اپنے مبدا کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے.‘‘ گویا
رانجھن یار طبیب سُنیندا، میں تن درد اولے
جے کوئی مِتراں دی خبر لے آوے ہتھ دے ڈیندیاں چھلے
میں وی جانا جھوک رانجھن دی , نال میرے کوئی چلے
صاحبانِ نظر نے غور و فکر کرتے کرتے اس کا حل بھی ڈھونڈ نکالا کہ جسم اور روح کی جنگ میں روح کو سپورٹ کیا جائے، اسے طاقت پہنچائی جائے اور جسم کو کمزور کیا جائے تو روح مادے کی قید سے آزاد ہوجائے گی اور اس کا رابطہ اپنی اصل سے جڑ جائے گا. اس کو سمجھنے کے لیے Pk فلم کی مثال لیں. روح (pk) ہے. وہ اس وعدے کے تحت ای گولہ پر آئی ہے کہ اس کا رابطہ اپنے مرکز و مبدا سے جڑا رہے گا اور وقتِ مقررہ پر اسے واپسی کی اجازت ہوگی. اور سپیس شپ اسے لینے آئےگا مگر جب او اینہاں گولہ پر آئی تو جسم نے اس کا ریموٹوا (جو اس کا اپنے مبدا سے رابطے کا واحد ذریعہ تھا) ہتھیا لیا. اب pk اپنا ریموٹوا ڈھونڈنے کے لیے یہاں وہاں مضطرب پھرتا ہے. یہاں انسان تو بہت ہیں مگر کونو اس کی بھاسا ہی نہیں سمجھتا. (کیونکہ وہ سب مادی ہیں)
(اور یہی سب میں اوپر واضح کر چکا کہ مادی علوم کو روح کے رابطے کی بحالی کی فکر ہے نہ پرواہ اور نہ ہی وہ اس کی مدد کر سکتے ہیں. مگر جب روح اپنے رابطے بحال کرنے کی اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کرتی ہے تو مادیات والوں کو پتہ نہیں کس بات کا مروڑ اٹھتا ہے.)
مضطرب پھرتے pk کو بالاخر اپنا ریموٹوا چربی سے تھل تھل کرتے ایک نام نہاد تپسوی جی کے قبضے میں ملتا ہے جنہوں نے اپنی مکاری پر ظاہراً خوش اخلاقی کا نقاب بھی ڈال رکھا ہے. Pk اپنا ریموٹوا واپس لینے کی کوشش کرتا ہے تو تپسوی جی کے چیلے (دل و دماغ وغیرہ) آڑے آتے ہیں. اب pk کے پاس ایک ہی حل ہے. وہ تپسوی جی کی طاقت (شہرت) کم کرے، اور اپنا ریموٹوا لے کر اپنے گولہ پہ رابطہ بحال کرلے. اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن طریقے سے تپسوی جی کی فیم پر اثر انداز ہوکر اسے کم کرتا ہے. جواباً تپسوی جی pk پر مختلف قسم کے الزامات دھرتے ہیں. کبھی کہتے ہیں کہ یہ ناستک ہے. کبھی کہتے ہیں یہ ایجنٹ ہے اور فساد مچوانے آیا ہے. کبھی کچھ کبھی کچھ.
امید ہے اب آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ مادیات والوں کے روحانیات والوں پہ الزامات کے پیچھے کون سے عوامل پوشیدہ ہیں، کیوں روحانیات والوں کو ناستک، شیطان کے ایجنٹ اور الا بلا بلا بلا کہا جاتا ہے.
ایک سوال میں اپنے قارئین کو بطور ہوم ورک دیتا ہوں کہ سوچیے. اس دنیا میں اول دن سے آج کے دن تک مادیات والوں نے کتنا خون بہایا اور کتنا ظلم کو فروغ دیا. اور روحانیات والوں میں اس کی شرح اگر زیرو سے اوپر ہے تو کتنی ہے؟
(جاری ہے)
معلقاتِ جوگی

Comments

Click here to post a comment

  • اگر روحانیت دین، مذہب (اسلام) ہی ہے تو پھر دیگر مذاہب اور کئی صورتوں میں تو لادین حضرات نے بھی روحانی قوتیں کیسے حاصل کی ہیں؟؟؟

    • عالی جاہ!! مذکورہ بالا پوسٹ میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ روحانیت دین , مذہب ہے.
      روحانیت دین کا حصہ ہے. نہ کہ پورا دین... روحانیت ایک جزو ہے نہ کہ کُل...
      یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر خاکسار کسی کو حدیث مبارک کا مفہوم سنائے کہ "صفائی نصف ایمان ہے" اور سننے والا سوال کرے اگر صفائی ہی ایمان ہے تو پھر صاف ستھرے تو فلاں فلاں مذہب و ملت کے لوگ بھی ہوتے ہیں تو کیا وہ بھی ایماندار ہوئے.
      دو عاجزانہ گزارشات ہیں.
      1:- اس تحریر کو دوبارہ پڑھیں...
      2:- یہ تحریر ابھی ختم نہیں ہوئی. آپ شاید تحریر کے آخر میں لکھے گئے دو لفظ "جاری ہے" نظر انداز کر گئے. ان کی طرف توجہ چاہتا ہوں.
      آپ نے نہ صرف تحریر پڑھی بلکہ تبصرے سے بھی نوازا اس کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے. آمین?