دنیا جس اسلام کو محمد عربی ﷺ کے پاکیزہ حوالے سے جانتی ہے ،اسے ریاست میں ایک مقتدر اور سپریم مقام حاصل تھا ، ہے اور رہے گا۔ ماننے والوں کے لیے عزت اور امن کی صورت میں اور ناماننے والوں کے لیے خوف اور خطرہ کی صورت میں۔
سیکولرزم(مذہبی آزادی) اسلامی ریاست کا لازمی حصہ ہے لیکن اس کی حیثیت ایک ماتحت، ایک پیادے اور ایک سپاہی کی سی ہے، جس کا کام ہر گھڑی اور ہر لمحے ریاست کے نظریاتی بادشاہ اور مقتدر اعلیٰ اسلام کے آگے جھکنا اور اس کی اطاعت کا دم بھرنا ہے۔اس کے برعکس مذہب کا جو مسخ شدہ تصور مغربی تہذیب کے متاثرین ہم سے منوانا چاہتے ہیں اس کے مطابق سیکولرزم کو ریاست میں سپریم طاقت حاصل ہے اور مذہب اس کا ایک ماتحت اور غلام ہے۔
محمد عربیﷺ کے اسلام کو فرد کی ذاتی زندگی کی طرح اس کی سب سے بڑی اجتماعی زندگی (ریاست) میں بھی مکمل اختیار، طاقت اور کنٹرول حاصل ہے، جبکہ مغرب کے غلاموں کا تصور مذہب صرف فرد کی ذاتی زندگی تک محدود ہے اور ریاست میں اسے مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
لڑائی کب شروع ہوتی ہے؟
آپ کو سیکولرزم بہت پسند ہے ناں۔ آپ جاگتے، سوتے، ہنستے روتے، اٹھتے بیٹھتے غرض ہر ہر لمحہ میں سیکولرزم کا خواب دیکھتے رہتے ہیں ناں؟ تو جایئے جا کر مغرب اور مشرق کے غیر مسلم ممالک میں مسلط سیکولرزم کے بت کی پوجا شروع کردیجیے، اس کی حمد ،ثناء اور تسبیح پڑھنا شروع کردیجیے۔ محمدﷺ کے ماننے والوں کی آپ سے کوئی لڑائی نہیں۔آپ کو آپ کا دین مبارک ہمیں ہمارا دین۔
لڑائی اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب آپ کاآقا مغرب سیکولرزم کی چھتری تلے ہر مذہب کے پیروکاروں کو احترام دینے کے لیے تیار ہے لیکن کائنات کے واحد سچے دین اسلام کو احترام دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے رسولﷺ، اسلام کی کتاب (قرآن) اور اسلام کے احکامات کا سیکولر دنیا کا میڈیا برسرعام مذاق اڑاتا ہے اور توہین کرتا ہے ، اور اسلام کے بھی صرف ان پیروکاروں کو اذیت اور جاہلی عصبیت کا شکار بناتا ہے جو اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور مغرب کی سیکولرتہذیب کے علمبردار مسلمان کی داڑھی، اس کے پردہ اور اس کے لباس پر پابندیاں لگانا شروع کردیتی ہے۔
جی جناب !لڑائی اس وقت شرو ع ہوتی ہے جب آپ اپنے اس بت کی محبت میں اسلام کو بھی دھکے دینے لگ جاتے ہیں اور مطالبہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ جناب جس طرح دنیا کے باقی مذاہب نے سیکولرزم کی بالادستی کو تسلیم کرلیا ہے اور ریاست میں عمل دخل سے دستبردار ہوگئے ہیں اسلام بھی سیکولرزم کی بالادستی کے آگے سربسجود ہوتے ہوئے ریاست کی تعمیر و تشکیل کے خواب دکھانا چھوڑ دے۔ نہیں منے بھائی نہیں یہ دھاندلہ نہیں چلے گا۔ ۔ ۔دنیا میں جب تک قرآن محفوظ ہے، دنیا میں جب تک محمد ﷺ کا نام باقی ہے، دنیا میں جب تک اسلام کے ماننے والے موجود ہیں، مسلم اکثریتی ممالک میں ریاست کی اسلامی تشکیل اور ریاست و حکومت پر اسلام کی بادشاہی قائم کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی ۔
چاہے کوئی پسند کرے یا ناپسند یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک یا تو اسلام کو بھی فرد کی نجی زندگی کی طرح اس کی ریاستی زندگی پر بھی مکمل کنٹرول اور اقتدار حاصل ہوجائے گا یا پھر دنیا سے مسلمان ختم ہوجائیں گے۔آپ اس کو فکری سطح پر روکنے کی کوشش کریں گے غلامان محمد ﷺسے آپ کی فکری سطح پر لڑائی شروع ہوجائے گی ، آپ اور آپ کے آقا (مغربی طاقتیں) عملی میدان میں اسلام کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے تو زندگی کے عملی میدان میں غلامان محمد ﷺ سے آپ کے آقاؤں کی لڑائی شروع ہوجائے گی ۔ آپ کے آقا (مغربی طاقتیں) کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ جی ! آپ ہی کے بنائے ہوئے اصول کی صورت میں مسلمان ضرور دہشت گرد ہوتے اگر مسلمان مغرب میں جاکر ریاستی اور فوجی مشینری کی طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو روکنے کی کوشش کرتے اور وہاں زبردستی اسلامی قانون نافذ کرنے کی کوشش کرتے۔
لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے۔ دولت مغرب کے پاس، طاقت مغرب کے پاس، ٹیکنالوجی مغرب کے پاس، بے مہابا جنگی سازوسامان و افواج مغرب کے پاس اور مغرب تھر تھر کاپنتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں کہیں اسلام کا عدل و انصاف اور امن پر مبنی نظام نافذ نہ ہوجائے، جس کے نتیجے میں مغرب کے کھوکھلے، دجالی، فریبی اور انسانیت کے دکھوں کا استحصال کرنے والے مغربی ازموں اور نظاموں پر انسانیت کا اعتبار ختم نہ ہوجائے ۔یہ ڈر، یہ خوف اور اندیشہ ان نام نہاد مغربی سیکولرطاقتوں کو مسلم ممالک میں مداخلت پر ابھارتا ہے اور وہ ان مسلم ممالک میں اسلام کا، امن کا اور عدل کا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے مغرب پیسہ بھی پانی کی طرح بہاتا ہے ، اپنی طاقت سے بھی ڈراتا ہے اور مسلم ممالک میں انارکی اور انتشار کو بھی ہوا دیتا ہے ۔تو جناب اصل اور بڑا دہشت گرد کون ہوا؟ دہشت گردی کا منبع اور سرچشمہ کون ہے؟دنیا کے خزانوں پر قابض اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ٹھیکیدار آپ کے مغربی آقا یا کہ بھوکے، ننگے، وسائل سے تہی دامن، ٹیکنالوجی اور اداروں سے محروم بدحال اور فاقہ کش مسلمان۔
اپنی خواہش کو معبود بنانے والے:
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح غیر مسلم اکثریتی ممالک نے اپنے اپنے ممالک سے اپنے پسندیدہ مسخ شدہ اور تحریف شدہ مذاہب کو ریاست و حکومت کے ایوانوں سے نکال باہر کیا اسی طرح مسلم اکثریتی ممالک میں بھی "ریاست وحکومت"کے ایوانوں سے اسلام کو نکال باہر کیا جائے، یہ لوگ سوائے اپنی خواہش کو معبود بنانے اور اٹکل پچودلائل دینے کے اور کچھ بھی نہیں کرتے۔
ان لوگوں کے بس میں یہ تو نہیں ہے کہ قرآن سے وہ تمام احکام اور آیات کھرچ کھرچ کر مٹا دیں جن میں ریاست وحکومت سے متعلق مسلمانوں کو ہدایات دی گئی ہیں اور نہ ہی ان کے بس میں یہ ہے کہ یہ اس حقیقت کو مسلمانوں سے چھپا سکیں کہ اسلام کے مقدس ترین رسولﷺ اور آپ کے قریب ترین ساتھیوں نے نہ صرف ریاست اور حکومت کے ایوانوں پر اسلام کے احکام کو نافذ کرکے دکھایا بلکہ اپنے وقت کی عالمی طاقتوں کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
تو پھر یہ کیا کرتے ہیں؟ یہ کرتے یہ ہیں کہ اپنی عقل، اپنی دانش، اپنے خیال، اپنے قلم اور اپنے کلام کے طاقت ورگھوڑوں کو دنیا کی ادنیٰ قیمت کے بدلے میں بیچ دیتے ہیں۔ کبھی ان کی منطق کے گھوڑوں کو کافروں کی دنیاوی طاقت و ٹیکنالوجی مسحور کرکے رکھ دیتی ہے، کبھی ان کے خیال کے گھوڑے مغرب کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے رسیاں تڑوا کر بھاگنے لگتے ہیں، کبھی ان کی دانش کےگھوڑے مغرب کی بے خدا(سیکولر) تہذیب کے پیچھے اس لیے سرپٹ دوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ اس میں مسلمانوں کو نجی زندگی میں بھی برابر کی عزت و آزادی دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کی دانش کے بے لگام گھوڑے مسلمانوں کی نجی زندگی میں بھی اسلام سے وابستگی (مثلاً نماز، تقویٰ، زہد، غنا، صبر، توکل، حجاب، داڑھی) کا موقع بے موقع مذاق اڑانے سے نہیں چوکتے۔
مسخ شدہ مذاہب اور اسلام:
جس کا مذہب ذاتی خواہشات ،مسخ شدہ اور تحریف شدہ تاریخی حوالوں کا نام ہے وہ جائے اور جاکر اعلان کرتا پھرے کہ ہمارا مذہب جس طرح غیر اللہ کی پوجا کی تلقین کرتا ہے اسی طرح دنیا کے تازہ "خدا" سیکولرزم کی پرستش سے بھی نہیں روکتا بلکہ اس کی بندگی کا حکم دیتا ہے۔ اور جس کا مذہب (دین) محمدﷺ اور قرآن کے عطا کیے ہوئے اسلام کا نام ہے ، وہ جس طرح ذاتی زندگی میں ایک اللہ کی بندگی اور پرستش پر اصرار کرتا ہے عین اسی طرح مسلمانوں کی ریاستی زندگی کو بھی اللہ کی بندگی اور پرستش کا حکم دیتا ہے۔
مسخ شدہ اور تحریف شدہ مذاہب اپنی ریاست کی بادشاہی کسی بھی فلسفہ اور ازم کو دے سکتے ہیں اور انہوں نے عملی طور پر ایسا کیا۔ مگر سچا ، صاف اور پاکیزہ دین اسلام دو ٹوک اعلان کرتا ہے کہ فرد کی نجی زندگی ہو یا ریاستی زندگی بادشاہی کا حق صرف اور صرف اللہ اور اس کے قانون (اسلام )کو حاصل ہے۔
تبصرہ لکھیے