ہوم << ایک پل کی کہانی جو64 سال میں نہ بن سکا - سچل فقیر

ایک پل کی کہانی جو64 سال میں نہ بن سکا - سچل فقیر

news-1434194316-4750_large سرائیکی وسیب کے دو اضلاع رحیم یار خان اور راجن پور کو ملانے کے لیے دریائے سندھ پر بننے والا پل 1952ء سے زیر تعمیر ہے۔1952ء میں اس وقت کے گورنر پنجاب اور قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی سردار عبد الرب نشتر نے چاچڑاں شریف ضلع رحیم یار خان میں اس پل کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ان کے نام کی تختی آج بھی چاچڑاں شریف میں لگی ہوئی ہے۔ 64 سال گزرنے کے باوجود یہ پل ابھی تک نہیں بن سکا اور ان اضلاع کے عوام کو دریائے سندھ کے پار جانے کے لیے 3 سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور اگر یہ پل بن جائے تو ان دونوں اضلاع کا درمیانی فاصلہ 5 کلو میٹر رہ جائے۔ 64 سال سے بننے والے اس پل کی کہانی دراصل پورے سرائیکی وسیب ( جسے آج کل جنوبی پنجاب بھی کہا جاتا ہے) کی ترقی کی کہانی ہے۔
41101694 کوٹ مٹھن شریف اور چاچڑاں شریف کے درمیان نشتر گھاٹ کے مقام پر دریائے سندھ پر بننے والا یہ پل 1952ء سے حکومتی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ کوٹ مٹھن شریف میں عظیم صوفی شاعر اور بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا مزار ہے جو پورے سرائیکی خطے میں بسنے والے ہر نسل اور مذہب کے لوگوں کے لیے باعث عقیدت ہے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے چاہنے والوں کی ایک بڑی اکثریت سابقہ ریاست بہاول پور کے اضلاع رحیم یار خان اور بہاول پور کے علاوہ دیگر سرائیکی اکثر یتی اضلاع مظفرگڑھ، ملتان اور لیہ میں بستی ہے۔ کوٹ مٹھن شریف اور چاچڑاں شریف کے درمیان دریائے سندھ پر پل نہ بنا کر تخت لاہور کے حکمرانوں نے درحقیقت حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے چاہنے والوں کے ساتھ شدید زیادتی کی ہے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے چاہنے والے ایک عرصے سے نشتر گھاٹ پر پل بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ سرائیکی صوبے کے مطالبے کے بعد اس خطے کی عوام کا سب سے بڑا مطالبہ نشتر گھاٹ پر پل کی تعمیر ہے۔
بے نظیر نواز تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے حکمران جان بوجھ کر اس پل کی تعمیر کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ نشتر گھاٹ پر کئی مرتبہ کشتیاں الٹنے سے ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے حکمرانوں کو ٹس سے مس نہیں کر سکا۔ نشترگھاٹ دریائے سندھ پر پل کی تعمیر کا مطالبہ نہ صرف عوام کی طرف سے ہوتا رہا بلکہ اس خطے کے شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور دانشوروں نے بھی ہمیشہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس جگہ پر پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ کئی مرتبہ حکمرانوں نے نشتر گھاٹ پر پل بنانے کا اعلان بھی کیا، ان اضلاع کے لوگوں سے ووٹ بھی حاصل کیے مگر بعد میں یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔ 1952ء کے بعد کے جمہوری دور اور ایوبی آمریت میں بھی پل بنانے کا وعدہ وفا نہ ہوا۔ بھٹو دور میں پل بن جانے کے امکانات بہت روشن تھے کیونکہ سرائیکی خطے کے لوگوں نے بھٹو کو بہت پیار سے نوازا، مگر بھٹو دور میں یہ منصوبہ سرد خانے میں پڑا رہا۔ضیا کے دور میں بھی اس منصوبے پر زبانی وعدے ہوتے رہے۔1988ء میں بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے دور میں سرائیکیوں نے بےنظیر بھٹو سے اپنی محبت کا حق ادا کر دیا مگر پل نہ بن سکا۔ نواز شریف کے پہلے دور میں بات زبانی وعدوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورحکومت میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے مخدوم شہاب الدین وزیر خزانہ تھے اور ان کی کاوشوں سے نشتر گھاٹ پل کی تعمیر کے لیے 77کروڑ روپے مختص کیے گئے مگر اس سے پہلے کہ اس پر کام کا آغاز ہوتا، بےنظیر بھٹو کی دوسری حکومت ختم کر دی گئی۔ اور نشتر گھاٹ پر پل بننے کی امیدیں بھی دریائے سندھ میں ڈوب گئیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں عوام کو نشتر گھاٹ پر پل بننے کی زیادہ امید نہ تھی کیونکہ نواز شریف لاہور سے اسلام آباد موٹر وے بنانے اور اپنے کارخانے لگانے میں بہت زیادہ مصروف تھے۔ نشتر گھاٹ پر کشتیاں الٹتی رہیں اور مظلوم سرائیکی ڈوب کر مرتے رہے، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
Pervez Musharraf مشرف دور میں اعلان ہوا کہ نشتر گھاٹ پر بڑا پل بنے گا اور ساتھ بیراج بھی اور کچھی کینال یہیں سے نکالی جائے گی مگر بیورو کریسی کو اپنا کمیشن زیادہ عزیز تھا، اس لیے کچھی کینال دو سو کلومیٹر دور تونسہ بیراج سے نکالی گئی، اور اب کچھی کینال ایک اور دریا بن کے سرائیکی خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے جا رہی ہے۔ مشرف کے نو سالہ دور میں جب پرویزالہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور سرائیکی علاقے کے بڑے بڑے سردار اور جاگیر دار وفاق اور پنجاب میں شریک اقتدار تھے، نشتر گھاٹ دریائے سندھ پر پل تعمیر نہ ہو سکا۔ دریا کی دونوں جانب وڈیرے اور جاگیردار پل بنوانے کے وعدوں پر ووٹ حاصل کر کے اسمبلی پہنچتے رہے مگر یہ بد قسمت پل وعدوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔
یوسف رضا گیلانی آخر خدا خدا کر کے مشرف رخصت ہوئے اور بے نظیر کی شہادت کے طفیل یوسف رضا گیلانی 2008ء میں ملک کے وزیر اعظم بن گئے تو سرائیکیوں نے یہ امید لگائی کہ یوسف رضا گیلانی نشتر گھاٹ کا پل چند ماہ میں بنا کر سرائیکیوں کے حقیقی محسن ہونے کا ثبوت دیں گے۔ ملتان میں چند فلائی اور اور دریائے چناب پر اپنے حلقے میں ہیڈ محمد والا پل بنانے کے علاوہ وہ پورے سرائیکی خطے میں ایک کیڈٹ کالج، ایک نئی یونیورسٹی، کوئی نیا ہسپتال اور کوئی نئی ایکسپریس ہائی وے نہ بنا سکے۔ یوسف رضا گیلانی چاہتے تو نشتر گھاٹ کا پل ایک سال کے اندر بن سکتا تھا مگر بننا تھا نہ بن سکا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ خدا خدا کر کے نشترگھاٹ کی تعمیر کے کام کا سنگ بنیاد دوبارہ رکھا گیا۔ بجٹ مختص ہوا، کام شروع ہو گیا۔ اسی دوران لاہور میں 90 دنوں کے اندر مسلم ٹائون میں فلائی اور بن گیا، مسلم ٹائون فلائی اوور دو ماہ کی مدت میں کلمہ چوک فلائی اور بن گیا، نو ماہ میں میٹرو بس بن گئی، مگر یوسف رضا گیلانی کے چار اور راجہ پرویز اشرف کے ایک سالہ اقتدار میں نشتر گھاٹ پل نہ بن سکا۔ تعمیراتی کام چیونٹی کی رفتار سے چلتا رہا اور 2013ء میں نوازشریف بر سر اقتدار آگئے۔ اسلام آباد اور پنڈی میں ایک سال کے اندر اربوں روپے کی لاگت سے میٹرو بس بن گئی، ملتان میٹرو بس بن چکی مگر نشتر گھاٹ پل پر پچھلے آٹھ سالوں سے کام جاری ہے۔ دریا کے بیچ میں پل ستونوں پر کھڑا ہو چکا ہے مگر دریا کے دونوں کناروں پر نہ ریمپ بنے ہیں اور نہ ہی ابھی تک دونوں کناروں پر پختہ سڑک کی تعمیر کے لیے ٹینڈر ہوئے ہیں۔
نشتر گھاٹ پر 64 سال سے بننے والا یہ پل شاید اگلے 64سالوں میں بن جائے۔ میٹرو ٹرین اور میٹرو بسیں چلانے والے حکمرانوں کے پاس اس پل کو بنانے کے لیے فنڈ نہیں اور اس علاقے کے سرائیکی سرداروں کو تخت اسلام آباد اور تخت لاہور کی حکمرانوں کی جی حضوری کے سوا اور کوئی کام نہیں۔ اگر یہ پل سرائیکی خطے کے علاوہ ملک کے کسی اور علاقے میں ہوتا تو بن چکا ہوتا مگر محکوم سرائیکی عوام خطے کے سرداروں اور تخت لاہور کے حکمرانوں کے دہرے غلام ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں۔

Comments

Click here to post a comment