ہوم << سیکولرازم سیکو لر نہ رہا - امام اعظم کاکڑ

سیکولرازم سیکو لر نہ رہا - امام اعظم کاکڑ

فرانس کی ایک عدالت نے بیچ کونسلوں کی جانب سے عائد کی گئی اس پابندی کو کالعدم قرار دیا ہے جس کے مطابق ساحل سمندر پر برقینی پہننے کی ممانعت تھی۔ یہ اگرچہ اس پابندی کے خلاف فرانس میں جدوجہد کرنےوالی مسلمان تنظیموں کی سیاسی فتح ہے مگر بیچ کونسلوں کے اس اقدام نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس سے چند روز پہلے نیس شہر کے ساحل پر پولیس اہلکاروں نے ایک مسلمان خاتون کو ساحل سمندر کی مناسبت سے نازیبا لباس پہننے پر نہ صرف جرمانہ کیا بلکہ اس کے کپڑے بھی اتروائے۔ درحقیقت یہ سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے مگر اس کی تپش کوئی سیکولر یا لبرل محسوس نہیں کرنا چاہتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرانس میں اس طرح کے اقدامات، برابری، آزادی اور سیکولرازم کے منافی نہیں ہے؟
سیکولرازم کے داعیوں کے بقول یہ بقائے باہمی، قبولیت، مخالف نظریے اور مذاہب کے لیے احترام کا درس دیتا ہے، مگر نیس میں پولیس اہلکاروں کے اقدام نے خاتون کے لباس اتروا کر ان اقدار کی توہین کی۔ پولیس کا بنیادی کام ملزم کی نشاندہی، اسے پکڑنا اور جرم کرنے سے روکنا ہوتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس کسی مجرم کو موقع پر سزا دے سکتی ہے؟ پولیس کسی قاعدے کے تحت کسی شخص سے کپڑے نہیں اتروا سکتی مگر جہاں بات مسلمانوں کی آتی ہے وہاں تمام اقدار اور رویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس واقعے کے وقت کسی شہری نے خاتون کی طرفداری کی نہ اس کے بعد خواتین کے حقوق کا ڈھنڈوارا پیٹنے والی تنظیموں نے کوئی مظاہرہ کیا۔ بنیادی انسانی حقوق پامال ہونے پر یورپی یونین آگے آیا نہ کسی اقوام متحدہ کا مذمتی بیان دیکھنے کو ملا۔
اب ذرا تصور کریں کہ یہی واقعہ ترکی، سعودی عرب، افغانستان، پاکستان یا کسی مسلمان ملک میں پیش آتا جہاں ایک آزاد خیال نظریے کی حامل، پینٹ جینز پہننے والی خاتون کو پولیس نے جرمانہ کیا ہوتا اور زبردستی برقع پہنایا ہوتا۔ پوری دنیا میں مچنے والی ہلچل آپ ملاحظہ کرتے۔ انسانی حقوق، بنیادی حقوق، خواتین پر جبر، ریاستی قوت کا غلط استعمال، شدت پسندی سمیت ایسے اصطلاحات سننے کو ملتے کہ آپ کی عقل دنگ رہ جاتی۔ بین الاقوامی میڈیا ایسے پروگرامات نشر اور خبریں شائع کرت کہ ساری دنیا کو سب کو پتہ چلتا کہ ظلم عظیم کا واقعہ رونما ہو چکا، خواتین کے بنیادی حقوق پامال اور انسانیت اپنی منزل سےگرچکی ہے۔
کیا سیکولرازم میں کسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی شہری کے لباس کا انتخاب کرے کہ وہ کیا پہنے گا؟ اگر سیکولرازم میں ہر کسی کو اپنے عقیدے، مذہب اور نظریے کے مطابق زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے توان مغربی ملکوں میں مسلمانوں کو یہ حقوق کیوں حاصل نہیں؟ اگر سیکولر فرانس کے کچھ بیچ کونسل اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مسلمان خاتون کو ساحل پر کیا پہننا چاہیے تو کیا ہم اپنے ملک میں اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہماری خواتین کیا پہنیں گی؟ اور اگر ایسا کوئی اقدام اٹھا بھی لیا جائے تو ان مغربی ممالک کے رد عمل دیکھنے والا ہوگا۔ اگرچہ یورپ سیکولرازم کو ایک ایسے نظریے کے طور پر پیش کرتا ہے جو ہر شہری کو مذہبی آزادی اور برابری کی سطح پر حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ نام نہاد سیکولرازم عیسائیت اور یہودیت کے اثر تلے دبا ہوا ہے، اسی لیے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ سیکولر ازم خود بھی سیکولر نہیں رہا۔

Comments

Click here to post a comment