ہوم << بے چارے دہریے - رضوان اسد خان

بے چارے دہریے - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان ہمارے نظام شمسی سے قریب ترین مماثل نظام میں ہماری زمین جیسا ایک سیارہ دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہاں پانی، ہوا اور (نتیجتاً) زندگی کا امکان ہے. ہمارے سورج سے 4.25 نوری سال کے فاصلے پر’’پراگزما سینٹاری‘‘ (Proxima Centauri) نامی ستارہ ہے جس کے مدار میں یہ ’’پراگزما بی‘‘ (Proxima-b) نامی سیارہ گردش کر رہا ہے. پراگزما سینٹاری کی حدت سورج سے کافی کم ہے اور یہ سیارہ اس سے 75 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو ہماری زمین سے سورج تک کے فاصلے کا محض 5 فیصد ہے اور یہ مدار میں اپنا چکر فقط 11.2 دنوں میں مکمل کر لیتا ہے، یعنی وہاں1سال میں صرف 11.2 دن ہوں گے.
اسی برس اپریل میں نامور سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے ارب پتی روسی سماجی شخصیت یوری ملنر اور فیسبک کے سی ای او مارک زکربرگ کے ساتھ مل کر 100 ملین ڈالر کے ’’بریک تھرو سٹار شاٹ انی شی ایٹو‘‘ (Breakthrough Starshot Initiative) نامی پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد ایسے’’نینو کرافٹس‘‘ (Nanocrafts) کی تیاری ہے جن کا وزن محض چند گرام ہو گا. اس کے باوجود وہ کیمرہ، انجن اور لیزر ڈیوائس پر مشتمل مکمل ’’خلائی جہاز‘‘ ہوں گے جو روشنی کی رفتار سے صرف پانچ گنا کم رفتار پر سفر کرنے کے قابل ہوں گے اور انہیں لیزر کے ذریعے اس قابل بنایا جائے گا. یعنی ہم سے قریب ترین ستارے تک کے 4 نوری سال کے سفر کو، جسے مکمل کرنے کے لیے موجودہ تیز ترین طیارے کو 30،000 سال درکار ہوں گے، یہ نینو کرافٹس محض 20 سال میں مکمل کر لیں گے. یوری ملنر ان نینو کرافٹس کو ’’خلائی مخلوق کی تلاش میں‘‘ 4.37 نوری سال کے فاصلے پر ایک اور ستارے ایلفا سینٹاری (Alfa Centauri) کے نظام شمسی میں بھیجنا چاہتے تھے، مگر اب ممکن ہے کہ اس دریافت کے بعد ان کی منزل ’’پراگزما بی‘‘ بن جائے. یہ نینو کرافٹس اگلے 20 سال تک تیار ہوں گے. بریک تھرو پراجیکٹ کے چئیرمین پروفیسر ابراہام کے مطابق پراگزما بی کی متوقع عمر سورج سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے. ان کے خیال میں آج سے 5ارب سال بعد جب ہمارا سورج اپنی عمر پوری کر کے معدوم ہو جائےگا تو انسان پراگزما بی کو اپنا نیا گھر بنانے کے قابل ہو چکا ہوگا.
ان بے چارے دہریوں کی سوچ پر ہنسی بھی آتی ہے اور ان کی عقل (جو ان کا خدا بھی ہے) پر افسوس بھی ہوتا ہے. اگر ان کو پتہ ہوتا کہ قیامت کی صورت میں اس پوری کائنات کا انجام اب کچھ زیادہ دور نہیں رہ گیا، تو شاید یہ خطیر رقم ان ’’فضول‘‘ منصوبوں پر ضائع کرنے کے بجائے انسانیت کی مزید فلاح پر خرچ کرتے. مگر تف ہے اس عقل پر جو اپنی حکومتوں کے ہاتھوں شامیوں کے بہیمانہ قتل عام، بلکہ نسل کشی پر تو کان لپیٹے بیٹھی ہے مگر 5 ارب سال بعد انسانیت کی بقا کی فکر میں گھلے جا رہی ہے.

Comments

Click here to post a comment