’’ارتقائے انسانی‘‘ کی عملی اہمیت صرف اتنی ہے کہ تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں جب ہمارے اجداد کی خوراک کا بڑا ذریعہ شکار ہوا کرتا تھا، تو خود ان کے کسی کا شکار بن جانے کے امکانات بھی کافی روشن ہوتے. ہم میں سے بیشتر میں انہی’’دادا جان‘‘ کے جینز ہیں جنہوں نے شیر کی آمد ’’محسوس‘‘ کرتے ہی دوڑنے کی کی. اور جو سوچ میں پڑ گئے کہ ہو سکتا ہے یہ شیر نہ ہو، محض کوئی گیدڑ یا لومڑ ہو، وہ اپنے’’عاقلانہ‘‘ جینز آگے منتقل کرنے کو باقی نہ بچے.
تو میرے بھائی ہم شکاریوں کے جینز کے حامل لوگ ہیں؛ جبلت اور جلد بازی والے جینز. اس لیے سوچنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرتے اور زیادہ تر انحصار اور فیصلے اپنی جبلت اور جذبات کے تحت کرتے ہیں. جیسے ہی کوئی’’خطرناک‘‘ بات (یعنی تنقید) سنی، فوراً پٹ سے جواب دینا فرض سمجھا. ہوشیار وہ سمجھا جاتا ہے جو زیادہ بذلہ سنج ہو اور جگت کا فوری جواب اس سے بہتر جگت سے دے سکے. دوسروں کی چیز دیکھ کر مچل جانا اور رشک و حسد کا شکار ہو جانا ہماری کمزوری ہے. پہلی نظر کے شکار (محبت) پر یقین کر لیتے ہیں اور پھر محبوب کی تمام خامیاں ہماری آنکھوں کے ’’بلائنڈ سپاٹ‘‘ کے علاوہ کہیں اور فوکس نہیں ہو پاتیں.
لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگلی شکار کا دور گزر چکا. اب وہی کامیاب ہوگا جو اپنے دماغ کے سوچنے اور ’’جلدباز سسٹم1‘‘ کو کنٹرول کرنے والے ’’سسٹم 2‘‘ کو زیادہ استعمال کرے گا. جو بھوک میں بھی سوچ سمجھ کر نقصان دہ ( مسلم ہے تو حرام) چیز نہیں کھائےگا. غصے پر قابو رکھے گا. جنس مخالف پر چڑھ دوڑنے کی حیوانی خواہش کو دبا سکےگا اور ہر چیز کے حصول کے ’’جائز‘‘ طریقے کو اپنائےگا.
شاید یہی وجہ ہے کہ دین کے تقاضے بھی قدیم امتوں سے اتنے نہ تھے جتنے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہیں. اور اس میں بھی جن چیلنجز اور فتنوں کا آج ہمیں سامنا ہے اور جو ہماری آئندہ نسلوں کو ہوگا، انہیں سن کر تو صحابہ بھی پناہ مانگتے. مثلاً میڈیا اور دجال کا فتنہ جن کی ساری محنت کا مرکز آپ کے جبلی، حیوانی تقاضے، یعنی سسٹم1 ہے.
کام تو مشکل ہے. ارتقاء کے دھارے کو بدلنا ہے. پر ہمت نہیں ہارنا. تقاضا سخت ہے تو اجر بھی ہمارے تصور اور گمان کی حدود سے ماورا ہے.
ملاحظہ فرمائیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔‘‘ الراوي: أبو أمامۃ و أنس بن مالك المحدث: الباني - المصدر: صحيح الجامع
تبصرہ لکھیے