ہوم << ایم کیو ایم؛ کراچی میں جرائم کی داستان - امام پانیزئی

ایم کیو ایم؛ کراچی میں جرائم کی داستان - امام پانیزئی

ایم کیو ایم کے حامی ہوں یا مخالف، سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ متحدہ کی سیاست میں اسلحہ اور اس سے متعلقہ لاتعداد اشیاء کا بہت عمل دخل رہا ہے۔ ایم کیوایم کی تنظیم کا باقاعدہ آغاز ہی نشتر پارک میں ہونے والے اس شدید فائرنگ سے ہوا جس میں ہزاروں راؤنڈ فراخ دلی سے آسمان پر برسائے گئے۔ الطاف حسین نے اس وقت یہ بیان داغا تھا کہ حقوق کے حصول کے لیے طاقت استعمال کرنا ضرور ی ہوا تو کریں گے. انہوں نے ٹی وی اور وی سی آر بیچ کر ہتھیار خرید لو جیسے سلوگنز بھی متعارف کراوئے۔
یکم نومبر 1986ء کو کراچی میں فسادات کا پہلا واقعہ رونما ہوا جس میں 12 لوگ مارے گئے۔ جلاؤ گھیراؤ میں درجنوں گاڑیاں جلائی گئیں۔ یہ متحدہ کی عملی سیاست کی شروعات تھیں۔ سیاست میں داخل ہونے کے بعد متحدہ نے کیا کچھ نہیں کیا۔ روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والے کراچی میں کلاشنکوف کلچر شروع ہوگیا۔ مہاجر نوجوانوں کو پرفریب نعروں سے ورغلایا جانے لگا اور ان کی مسلح ٹریننگ شروع کر دی گئی۔ عام شہریوں کوگھروں سے اغوا کیا جانے لگا۔ مخالفین پر بدترین تشدد ہونے لگا۔ راستے میں حائل ہونے والے ہر شخص کو قتل کیا جانے لگا اور اس میں اپنے چیئرمین سمیت کسی کو معاف نہیں کیا گیا۔ پورے شہر میں الطافی ٹولے کا غنڈہ راج قائم ہو گیا۔ وار گینگز کی بہتات ہوگئی، حد تو یہ ہے کہ الطاف اینڈ برادرز سکیورٹی اداروں پر وار کرنےسے بھی نہ گھبرائے۔ میجر کلیم کیس تو آج بھی سب کو یاد ہے.
امن عامہ خراب کرنے والوں کے خلاف 1992ء کا آپریشن ہوتا ہے۔ سرکردہ بدقماش رہنما ملک سے بھاگ جاتے ہیں٘۔ ہزاروں سڑک چھاپ بدمعاش پکڑے گئے یا مارے گئے، جواب میں متحدہ کے عسکری ماہرین نے چن چن کر آپریشن میں حصہ لینے والوں کو مارا۔ چونکہ مجرموں کا تعلق زیادہ تر ایم کیوایم سے تھا اس لیے پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ریاست متحدہ کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ ہر پلیٹ فارم پر اسی بات کی گردان ہوتی رہی۔ 1996ء میں پھر آپریشن ہوا اور ایک لحاظ سے تخریبی عناصر کا صفایا کر دیا گیا. پھر یہ ہوا کہ وہ جنرل مشرف جو الطاف حسین کو اپنے پستول سے قتل کرنے کی خواہش رکھتے تھے، انھوں نے اسی الطاف حسین کو گلے لگا لیا اور ایم کیو ایم کو نئی زندگی بخش دی۔ یہاں سے کراچی میں خوف اور دہشت کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ کہیں مخالفین کو دن دہاڑے قتل کر دیاجاتا تو کہیں شہریوں کے سروں میں ڈرل سے سوراخ کیے جاتے۔ لوگوں پر تشدد، اغوا، زمینوں پر قبضہ، کلاشنکوف کلچر، بوری بند لاشیں اور مخالفین کا راستہ روکنے کے لیے نت نئے مگر خوفناک طریقے اپنائے گئے۔ جماعت اسلامی، اے این پی، پیپلز پارٹی سمیت سیاسی پارٹیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ حکیم سعید اور شہر کے نامی گرامی علمائے کرام نشانہ بنائے گئے۔ سانحہ نشتر پارک میں بم دھماکےسے 50 افرا دہلاک ہوئے۔ 12 مئی کو چیف جسٹس کی کراچی آمد پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔
جمہوری دور آیا تو پیپلز پارٹی نے متحدہ کو 5سال کے لیے گود لے لیا۔ اس دور میں روز نئے نئے انکشافات سامنے آنے لگے۔ متحدہ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کا تعلق سامنے آیا، سینکڑوں کارکنوں کے را کے زیر تربیت رہنے کا انکشاف بھی قوم نے سنا، اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات بھی آتی رہیں۔ کراچی میں ہونے والے کئی بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے تانے بانے متحدہ سے ملنے لگے۔ دباؤ پر نوازشریف نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تو ٹارگٹ کلرز کی اعترافی ویڈیوز کے ذریعے کئی راز سامنے آنے لگے۔ عمران فاروق کا قتل ہو کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 3 سو لوگوں کو زندہ جلانے کا معاملہ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل ہو یا چائنہ کٹنگ اورمنی لانڈرنگ، ان ٹارگٹ کلرز نے بتایا کہ سب جرم متحدہ رہنماؤں کے اشاروں پر کیے گئے تھے۔ اس دوران الطاف حسین اپنے کارکنوں کا لہوگرمانے کے لیے تشدد اور دہشت پھیلانے کے طریقے ٹیلی فون پہ بتاتے رہے اور ساحل پر فوجی ٹریننگ اور مشق کا بھی کہتے رہے۔ پاکستان مخالف بیانات بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے اور معافیاں بھی اسی رفتار سےمانگی جاتی رہیں۔ ریاستی ادارے ایسے بیانات پر درگزر کا معاملہ کرتے رہے اور معاملہ مزید خراب ہوتا گیا، اور نوبت پاکستان مخالف نعروں اور ملک توڑنے کے منصوبوں پر آ پہنچی. اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف تازہ بیان پر حکومت کیا کارروائی کرتی ہے؟ اور اسلحہ کے بل پر کراچی کو یرغمال بنانے والی متحدہ سے کیسے نمٹا جاتا ہے؟

Comments

Click here to post a comment

  • امام پانیزئی ،متحدہ نے اسلحے کی سیاست شروع کی تھی یا تمھاری قوم کے لوگوں نے پہلے متحدہ کے نہتے لوگوں پر خونی حملے کیئے تھے؟؟
    تاریخی حقائق کو تم جیسے بدبودار تعصبی تو جھٹلا سکتے ہین لیکن دنیا اور تاریخ نہیں ،اور کیا یہ حقیقت نہین کہ صدیوں سے تمھاری قوم کے لوگ اسمگلنگ، منشیات اور ناجائز اسلحے کے گھنائونے کاروبار میں ملوث رہے ہیں؟
    دوسروں پر اپنے اور اپنے علاقے والوں کے گناہوں کا بار ڈال دینے سے تم لوگ پاک نہین ہوجائو گے سمجھے۔
    ہر دور مین تم جرائم پیشہ پٹھانوں نے کرپٹ پنجابی پولس والوں کے ساتھ مل کر کراچی مین خون خرابے اور جرائم کا بازار گرم کیئے رکھا۔جس میں دامے درمے سخنے پاکستان کی نام نہاد ایجینسیوں نے بھی اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے کیونکہ تمھارے اسلحے اور منشایت کے کاروبار کو فیسلیٹیٹ کرنے والے اور اس سے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے بھی تو وہی تھے نا ۔
    اس لیئے اپنی مجرمانہ ذہن اور گٹر زبان سے کراچی اور ایم کیو ایم والوں کے بارے میں بکواس کرنے سے پہلے اپنے ہم زبان سہراب گوٹھ کے درندوں کا حیدرآباد سے اتے ایم کیو ایم کے نہتے طلباء کارکنوں کا قتل عام اورعلی گڑھ کالونی و قصبہ کالونی مین سوتے نہتے اردو بولنے والوں پر شب خون مارنا ان کی عورتوں کی عزت وآبرو جان و مال لوٹنا نہ بھولو ،کیونکہ ہم آج تک کچھ نہیں بھولے ہیں