ہوم << بے غیرتی والا قتل یا غیرت کے نام پر قتل - میاں عتیق الرحمن

بے غیرتی والا قتل یا غیرت کے نام پر قتل - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن متحدہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں فورٹ ولیم نام کا ایک کالج تھا جسے انگریز سرکار نے 1800ء میں علوم شرقیہ کے لیے قائم کیا تھا. اس نے برصغیر میں بہت سے کارنامے سرانجام دیے جن میں سے ایک عظیم اور مؤثر ترین کارنامہ یہ تھا کہ وہ ریسرچ کے نام پر برصغیر کے بہادر پٹھان، سکھ اور کپڑے کے صنعت کار جولاہوں کے خلاف مزاحیہ اور بدنام کرنے والے کردار، لطائف اور محاورے وضع کروایا کرتا تھا تاکہ ان کی سنجیدگی اور محنت مذاق بن جائے، اور وہ معاشرے میں بدنام ہو جائیں اور کاروباری یا جنگی میدان میں ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکیں۔ وہ یہ کر نے میں کامیاب ہوئے یا نہیں، یہ آپ خود ذہن پر زور دیں تو جان جائیں گے۔ ان کے بارے میں لطائف اور محاورے آج بھی موبائلوں، فیس بک والز اور انٹر یٹ پربکثرت موجود ہیں۔
انگریز خود تو چلا گیا مگر وہ یہ سلسلہ اپنے نونہال کاٹھوں کو دے گیا جو مختلف حربوں سے اسے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں. غیرت کو قتل کے ساتھ، شرم وحیا کو گالی کے ساتھ ملا کر معاشرے میں ان مقدس جذبوں کے خلاف ویسی نفرت پھیلائی جا رہی ہے جبکہ انسان کے خالق نے اس کی جبلت میں حیا، شرم اور غیرت جیسے اوصاف رکھ دیے ہیں جو اسے عزت، احترام، وقار اور اصول و ضوابط کے دائرے میں رہ کر زندگی بسر کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان مصنوعی بنتا جا رہا ہے۔ اسے خالق کی تخلیق میں نقائص نظر آنے لگے ہیں، ایسے ہی اس کے پیدا کیے گئے غیرت اور شرم و حیا جیسے اوصاف حسنہ بھی برے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک طبقے نے انہیں اپنے سے دور کر رکھا ہے، اور جو انھیں اپنے سے دور کرنے پر تیار نہ ہوئے توانہیں ان اوصاف سے دور کرنے کے لیے غیرت اور شرم جیسے اوصاف کو مذاق اور ظلم سے جوڑنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ مگر پھر بھی معاشرہ مجموعی طور پر شرم وحیا اور غیرت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ شرم و حیا اور غیرت جیسے الفاظ کو ظالمانہ رویوں سے جوڑا گیا اور غیرت کو غیرت کے نام پر قتل اور شرم و حیا کو دقیانوسیت کہا گیا، اور اب شرم وحیا اور غیرت کو گالی اور قتل کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے تاکہ ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنے کا جذبہ بھی ماند پڑجائے۔ سوچ یہ کام کر رہی ہے کہ گالی اور قتل سے متصف اوصاف کو اپنے اندر کون پیدا کرے گا۔ یوں غیرت اور شرم و حیا کا جنازہ نکال کر بےغیرتی اور فحاشی و عریانی کو روشن خیالی، وسعت نظری اور جدیدیت کہنے میں آسانی ہو جائے گی۔
موبائل فونوں، فلموں، ڈراموں اورفحش ویب سائٹس کے ذریعے پہلے اپنے گھر سے شرم و حیا اور غیرت کا جنازہ خود نکالو اور پھر جب غیرت نکل جائے اور اس کی جگہ بے غیرتی، بےشرمی اور فحاشی و عریانی ڈیرہ جما لے اور بہنوں اور بیٹیوں کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنے یا شادی سے پہلے تعلقات قائم کرنے پر مجبور کر دے، تو پھر اپنی انا کی خاطر انہیں قتل کردو، اور پھر اس قتل کو غیرت جیسے مقدس جذبے کے ساتھ جوڑ دو۔ یہ ڈھٹائی، بےشرمی اور بےغیرتی تو ہو سکتی ہے مگر غیرت ہرگز نہیں۔
کئی لڑکیوں سے ناجائز تعلقات رکھو اور ساری ساری رات فون پر ان سے باتیں کرو۔ اور یہ سب تمھاری بہنوں کے بھی علم میں ہو. اس عاشقی معشوقی کے تعلق کو نبھانے کے لیے گندی فلموں اور گانوں کا سہارا بھی لو۔ پھر اس شہوت پرستی کو محبت جیسے نیک جذبے کا نام دو۔ مگر تمہارے جیسا کوئی دوسرا یہی عمل تمہارے اپنےگھر میں دہرائے تو پھر تمہاری غیرت جاگ جائے اور قتل و غارت گری پر اتر آؤ اور اسے غیرت کے مقدس جذبے سے منسلک کرو۔ کیا اسے انصاف کہتے ہیں۔ شہوت پرستی کو محبت اور بے غیرتی اور دیوثیت کو غیرت کہنا محبت اور غیرت جیسے جذبوں کی زبردست توہین کے سوا کچھ نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ نے کہا تھا:
ان الزنا دین فان قرضتہ، کان الوفاء باھل بیتک فاعلم
زنا ایک قرض ہے، اگر تو یہ قرض لے گا تو اس کی ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہوگی۔
افسوس کہ اتنے بڑے جرم کو نیک جذبہ غیرت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ قتل کرنے والی غیرت اس وقت نمودار ہوتی ہے جب کوئی بیٹی، بہن گھر سے بھاگ جائے، یا پھر اپنی پسند کی شادی کر لے۔ پھر اس کی جان لینے پر یہ نام نہاد غیرت ختم ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں آتی ہے؟ اگر ان خرابیوں کی جڑ تلاش کرنے لگیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں شرعی احکامات کا مذاق اڑایا جاتا ہے، پردہ کو پرانے زمانے کی یاد قرار دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ یا دیگر کسی فنکشن میں مخلوط محفلوں کا انعقاد کرنا اور ان میں اپنی عورتوں کو سجا سنورا کر پیش کرنا باعث افتخار سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں کو مردوں اور مردوں کو عورتوں کے ساتھ نوکریاں کرنے کے لیے اجازت دی جاتی ہے، غص بصر کو خود اعتمادی میں کمی کہا جاتا ہے، پراڈکٹ بیچنے کے لیے عورت کے ستر تک کی تصاویر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور یہ سارا کام بہت سے لوگ بڑی خوشی سے برداشت کرتے جا تے ہیں اور معاشرے کے بہت سے افراد خود بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان سارے حالات کو بنانے والے اور اس میں کنٹری بیوٹ کرنے والے کو شریعت نے’’دیوث‘‘ کہا ہے اور دیوث مرد ہوتا ہے عورت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اپنی بیوی، بیٹیوں، بہنوں کے پردہ نا کرنے پر، مخلوط محفلوں میں جانے پر رضامند ہوتا ہے۔ ایسے بندے کو دیوث قرار دیا گیا ہے اور اس پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :
[pullquote] اَنَّ رَسْولَ اللَّہِﷺ قَالَ ثَلَاثَۃ قَد حَرَّمَ اللَّہْ عَلَیہِم الجَنَّۃ َ مْدمِنْ الخَمرِ وَالعَاقّْ وَالدَّیّْوثْ الَّذِی یْقِرّْ فِی اھلہِِ الخَبَثَ[/pullquote] حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں۔جن پر اللہ نے جنت کو حرام کر دیا ہے۔ دائمی شرابی،ماں باپ کا نافرمان، اور دیوث جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے۔ سنن النسائی 2562،،مسند احمد رقم الحدیث 5349
غیرت میں آکر قتل کرنے کے بجائے اپنے آپ کو دیوث بننے سے بچاؤ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں خود ہی ایسی ذلت اور پستی سے دور کر دے گا۔
جو باپ اور بھائی بیٹیوں اور بہنوں پر جبر کرتے ہیں اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں، انہیں انتہائی سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔غیرت کے نام پر قتل صرف دور جاہلیت میں ہوا کرتا تھا اور وہی روایت آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جاری و ساری ہے بلکہ اخلاقی اعتبار سے دور جاہلیت جدیدیت یا ترقی کے نام پر واپس آ رہا ہے۔ دورجہالت میں بھی باپ غیرت کے نام پر پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کرکے قتل کر دیتے تھے جسے نبی کریم ﷺ نے آ کر بند کروایا مگر دور جہالت کی وہ روش اب اور انداز میں پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ دور جہالت کے ظلم اور بربریت کو دہرایا جا رہا ہے۔ ایک بار نبی کریم ﷺکے پاس بھی ایسا سوال آیا تھا اور آپ سے ایک صحابی نے پوچھا تھا کہ کیا میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں انہیں قتل کردوں۔ تو آپ ﷺ نے منع فرمادیا تھا اور کہا تھا کہ:
اتعجبون من غیرۃ سعد انا اغیر منہ واللہ اغیر منی
نبی کریم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ غیرت والے اور ان سے بھی بڑے غیرت والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو جب وہ اس قتل کی اجازت نہیں دیتے تو یہ جہالت، ظلم و بربریت اور بےغیرتی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ایسی صورتحال میں کسی کو قتل کرے گا تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو قتلوں کی قانون سازی میں بھی الگ الگ سلوک چاہتے ہیں کہ ڈکیتی، دشمنی، غداری میں قتل پر تو مجرم کے ساتھ انسانی حقوق اور ہمدردی کے نام پر دامادوں کا سلوک کیا جانا چاہیے اور صرف قتل غیرت کے ساتھ قصاص والا معاملہ ہو۔ ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ:
کیا غیرت کے نام پر قتل، قتل غیرت ہے بھی یا نہیں (غیرت کے نام پر قتل کا لفظ صرف سمجھانے کے لیے ہے ورنہ میرے نزدیک اس طرح کا قتل غیرت کے نام پر نہیں بلکہ بے غیرتی اور انا پرستی والا قتل ہے)۔ اگر غیرت کے نام پر قتل بھی قتل ہے تو پھر ہر طرح کے قتل کے قوانین سخت کرنے کی ضرورت ہے یا صرف غیرت کے نام پر قتل کے قوانین۔ کیا غیرت کے نام پرقتل کی اور دیگر قتل کی سزا الگ الگ ہونی چاہیے۔ اگر جواب نہیں ہے تو پھر اس کے بارے میں الگ قانون سازی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر کیا قتل میں کسی کی جان نہیں جاتی، تب تو پھانسی دینے پر شور مچایا جاتا ہے، فوجی عدالتوں کی دی گئی پھانسیوں پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں مگر انہی لوگوں کی طرف سے صرف غیرت کے نام پر قتل پر دہرا معیار کیوں؟ جبکہ قرین انصاف تو یہی ہے کہ ہر طرح کے قتل کی سزا سرعام پھانسی ہونی چاہیے تاکہ قاتل قتل کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ اور اس طرح قتل کا جرم ختم یا انتہائی کم ہوجائے۔ قتل خواہ غیرت کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر، اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا قصاص ہے۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment