ہوم << شب جائے کہ من بودم - قاضی عبدالرحمان

شب جائے کہ من بودم - قاضی عبدالرحمان

نمی دانَم چہ منزل بُود، شب جائے کہ من بُودَم
(نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا)
وہ بدر کامل کی ایک رات تھی جس کی نورانیت کے سامنے دن کی روشنی بھی ماند تھی- تاروں بھرے آسمان میں بدر کامل یوں دکھائی پڑتا تھا جیسے بنین یعقوب میں یوسف دوراں (علیہ السلام) کا ظہور. اس پرنور و پرسکوت فضا میں رچی بسی رات رانی کی مہک، روح کو خمار آگیں کیفیت سے ہم کنار کروا رہی تھی. رات کی خامشی بھی ہم سخن تھی.
خاک شناس میں خود شناس ہونے کی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں. شوق نےتقاضے کو مہمیز کیا. فرس تخیل، وقت کے پہلو بہ پہلو محوسفر ہوا، تاریخ کی وادیوں پر وادیاں قطع ہوئیں. ہروادی ایک آیت ٹھہری جو عبرت و نصیحت سے پر تھی. خلائے بسیط اپنے محیط کی جانب راہنمائی پر آمادہ نظر آرہی تھی. اس جا کی جانب جہاں جا کر ذرہ، صحرا دستگاہ اور قطرہ دریا آشنا بنتا ہے.
الغرض ایک عجب مقام پر پہنچا، جہاں سینا و فارابی کی حیرت دوچند تھی اور رومی و جامی کی مسرت قابل دید، اس لیے کہ فطرت کے راز جو عقل سے مخفی تھے، وہ دل کے روبرو وا ہوئے جا رہے تھے، جو عقل سے دور تھا وہ دل سے قریب معلوم پڑ رہا تھا. طور پر عظمت کے بوجھ سے رعشہ طاری تھا اور حرا اپنی قسمت پرنازاں تھی. ادھر جلال تھا ،ادھر جمال تھا. صدیوں قبل جس آسمانی امین کی امانت کو روح الامین زمین کے امین پر لے کرنازل ہوا تھا، اس کی محبت کی وحی خوشبو کی مانند قلب پر نازل ہو رہی تھی. عشق وراء الوراء ہستی کی بارگاہ میں سربسجود تھا.
ہائے وقت کس تیزی سے چند گھڑیوں میں گزرگیا!’’بعد چہارم‘‘ کا ناظر پھر سے ’’ابعاد ثلاثہ‘‘ کا قیدی بنا دیاگیا. جسم کو تو خیر کوئی شکایت نہیں مگر اس دل کا کیا کروں جو دوسری بار کی آرزو میں گنگنائے جارہا ہے:
یا مری جان قبض کر لے آ
یا مجھے دیدہ تماشا دے

Comments

Click here to post a comment