ہوم << اُمت کے فرعون - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

اُمت کے فرعون - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

عبداللہ بھٹی مسجدِنبویﷺ کاصحن سید الانبیاءﷺ کے جانثاروں پروانوں سے بھرا ہوا تھا، پروانوں کی درود و سلام کی صدائوں سے مسجدنبویﷺ گو نج رہی تھی، پروانے اپنی اپنی عقیدتوں کا اظہار اپنےاپنے طریقے سے کر رہے تھے، ہر روز جانثاروں کے قافلوں کے قافلے اظہار عقیدت کےلیے مسجد نبوی ﷺ آتے ہیں اور اپنی عقیدتوں کا اظہار اور خالی جھولیاں بھر کر واپس جاتے ہیں.
اچانک میرے دماغ میں دو فرعونوں کا خیال آیا جو مجھے مضطرب کر گیا. کون ہیں ابوجہل اور ابولہب کہ جنہوں نے نبی رحمتﷺ کو بہت زیادہ ایذائیں دیں، جان کے درپے ہوگئے یہاں تک کہ آقا پاکﷺ کو مکہ شہر چھوڑ کر مدینے ہجرت کرنا پڑی. نبی کریمﷺ کے مدینہ جانے کے بعد بھی ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ ابوجہل ہتھیاروں سے لیس ہو کر لشکر جرار کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوگیا کہ (نعوذ باللہ) سرتاج الانبیاﷺ کو ختم کر کے ہی واپس جائوں گا. جنگ بدر کے دوران تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ظالم فرعون یہ کلمات پڑھتا ہوا فخریہ مشرکین مکہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا۔ یہ شدید جنگ مجھ سے کیا انتقا م لے سکتی ہے؟ میں وہ نوجوان طاقتور اونٹ ہوں جو اپنے عنفوان شباب میں ہے، میری ماں نے مجھے ایسی جنگوں کے لیے ہی جنا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم اور دیگر محدثین نے اِس عبرت انگیز واقعے کو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے حوالے سے یوں روایت کیا ہے کہ بدر کے دن میں مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تھا تو میں نے اپنے دائیں بائیں دو نوعمر انصاری نوجوانوں کو کھڑے دیکھا تو یہ سوچا کہ کاش میرے دائیں بائیں ان نوجوانوں کے بجائے طاقتور مضبوط جنگجو ہوتے تو بہت بہتر ہوتا، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُن نوعمر نوجوانوں میں سے ایک میرے قریب آیا اور بولا اے چچا جان کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں تو میں بو لا ہاں بھتیجے میں اُسے خوب جانتا ہوں، تمھیں اُس سے کیا کام ہے؟ تو وہ بولا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ میرے نبی پاک پیارے آقا جی ﷺ کے بارے میں بے ادبی کرتا ہے، بخدا اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا بدن اس کے بدن سے جدا نہ ہوگا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جسے مرنے کی جلدی ہے. ابھی اُس نوجوان نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ دوسرا نوجوان میرے قریب آیا اور وہی سوال کیا وہی بات پوچھی جو پہلے نے پوچھی تھی. اسی دوران میں نے دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا ہے اور فخریہ رجز پڑھ کر انہیں جوش دلا رہا ہے. میں نے نوجوانوں سے کہا یہ ہے وہ گستاخِ نبی جس کے بارے میں تم دونوں پوچھ رہے تھے، میرایہ کہنا تھا کہ دونوں نوجوان عقابوں کی طرح ابوجہل پر جھپٹے اور اُس ظالم فرعون پر حملہ آور ہوگئے، اپنے واروں سے اُس فرعون کو گھائل کر دیا اور وہ بےحس و حرکت زمین پر جا گرا. یہ کارنامہ برق رفتاری سے انجام دے کر دونوں دلنواز آقا کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ ہم نے ابوجہل کو ٹھکانے لگا دیا ہے. نبی کریمﷺ نے پو چھا تم دونوں میں سے کس نے اُسے قتل کیا تو دونوں بو لے میں نے اُسے قتل کیا تو آقا کریمﷺ نے دونوں کی تلواروں کو چیک کیا تو اُن پر ابوجہل کا خون لگا ہوا تھا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں تم دونوں نے اُسے قتل کیا ہے. ان دونوں نوجوانوں کے نام معاذ اور معوذ تھے. حضرت معاذ ؓ خود فرماتے ہیں، میں نے لوگوں سے سنا کہ ابوجہل دشمن رسولﷺ ہے، اور اُس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ہے. میں نے دل میں ارادہ کر لیا کہ میں اِس دشمن خدا اور رسول کو جہنم رسید کروں گا. دوران جنگ جب مجھے ابوجہل دکھائی دیا تو میں تلوار لے کر اُس پر ٹوٹ پڑا. میرے پہلے وار سے اُس کی ٹانگ پنڈلی سے کٹ کر دور جا پڑی، اپنے باپ کو زخمی دیکھ کر اُس کا بیٹا عکرمہ جو بعد میں مسلمان بھی ہوگیا، نے میرے اوپر حملہ کر دیا جس سے میرا بازو کٹ گیا، صرف جلد بچ گئی جس کے سہارے بازو کندھے سے لٹکنے لگا، میں سارا دن اِس کٹے بازو کے ساتھ مشرکین سے جنگ لڑتا رہا. قاضی زادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ ختم ہوئی تو حضرت معاذ ؓ اپنا کٹا ہوا بازو لے کر دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوگئے. شافع دوجہاںﷺ نے اپنا لعاب دہن اس پر لگایا تو کٹا ہوا بازو کندھے کے ساتھ دوبارہ جڑ گیا۔
سرور دوجہاںﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ابوجہل کی لاش لانے کو کہا کہ عبداللہ بن مسعود اپنے پیارے آقا ﷺ کے حکم پر ابوجہل کی لاش کی تلاش میں نکل پڑے، ایک جگہ ابوجہل کو زمین پر زخموں سے نڈھال پڑے ہوئے دیکھا، اُس کا سارا جسم فولادی زرہ میں چھپا ہوا تھا. تلوار اس کی رانوں پر پڑی ہوئی تھی، کمزوری کے باعث وہ حرکت کرنے کے قابل نہ تھا. عبداللہ بن مسعود ؓ نے اُس کے اردگرد چکر کاٹا اور پھر ابوجہل کے سینے پر چڑھ گئے. ابوجہل بولا ’’اے بکریوں کے نکمے چرواہے تو نے بڑے دشوار زینہ پر قدم رکھا ہے‘‘، ابوجہل کی ٹانگیں کٹ چکی تھیں، سارا جسم زخمی زخمی تھا، موت سر پر نظر آرہی تھی لیکن تکبر، غرور، نفرت و عداوت ابھی تک باقی تھی. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اپنے نبیﷺ کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ میں عمر بھر اس کا دشمن رہا ہوں اور اِس وقت بھی اِن کے بارے میں میرا جذبہ عداوت بہت شدید ہے. پھر عبداللہ بن مسعود ؓ نے ظالم کی گردن کاٹنے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ میری تلوار پرانی اور بوسیدہ ہے. شاید اِس کی گردن نہ کاٹ سکے تو انہوں نے تلوار سے اُس کے سر پر ضربیں لگانا شروع کر دیں، اُنہیں یاد آگیا کہ وہ ظالم کبھی اُن کے بالوں کو کھینچا کرتا تھا، ابوجہل پر جاں کنی کا عالم طاری ہوگیا، مرتے مرتے سر اٹھایا اور پوچھا کہ فتح کس کی ہوئی تو عبداللہ بن مسعود ؓ بولے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی، پھر عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ظالم کی داڑھی پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا اور کہا اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جس نے اے اللہ کے دشمن تجھے ذلیل کیا، میں نے اس کا خَود اس کی گردن سے ہٹایا اور تلوار کا بھرپور وار کیا، اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، اس کا سر اٹھایا اور دربار رسالتﷺ میں پیش ہوگیا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ابوجہل کا سر حاضر ہے تو شافع دوجہاںﷺ نے تین مر تبہ فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا فرمائی اور پھر نبی کائنات ﷺ سر بسجود ہوگئے اور فرمایا ہر امت کا فرعون ہوتا ہے، امت مسلمہ کا فرعون ابوجہل تھا.
یہاں پر خدا کی قدرت کی شان دیکھیں، زخمی ہو کر بھی ابوجہل بےہوش یا مرا نہیں تھا، بس نڈھال تھا اور اپنے ہوش و حواس میں تھا، اس کی حکمت یہ تھی کہ اللہ نے آج انصاف کرنا تھا، اسلام لانے کے جرم میں ابوجہل، عبداللہ بن مسعود ؓ جو جسمانی لحاظ سے کمزور اور قبیلے کے لحاظ سے بھی کمزور تھے، اُن کو سخت سزائیں دیا کر تا تھا، اکثر ان کے بال پکڑ کر منہ پر طمانچے مارتا، گالیاں دیتا تھا اور طرح طرح سے نقصان پہنچایا کرتا تھا اور یہ مسکین جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور جنگ بدر کے دن وہی عبداللہ بن مسعود ؓ اس کے سر پر ٹھوکریں مار رہے تھے، اس کی چھاتی پر بیٹھ کر مونگ دَل رہے تھے، اُس کی تلوار چھین کر اس کی گردن کاٹ کر حضور اقدس ﷺ کے نعلین پاک کے نیچے پھینک دی، اس طرح قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بن گیا.
دوسرے دشمن کا انجام بھی بہت خوفناک ہوا. جنگ بدر کی شکست کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ابولہب عذاب الہی کی گرفت میں آگیا. ایک خطرناک پھنسی نکل آئی جو عربوں میں بہت منحوس اور متعدی بیماری سمجھی جاتی تھی. جب بیٹوں اور گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اُس کے قریب آنا بند کر دیا، وہ اکیلا درد اور اذیت سے چیخیں مارتا، مدد مدد بلاتا لیکن کوئی نہ آتا، بے یار و مددگار مر گیا، اس کی لاش تین دن تک بےگور و کفن پڑی رہی،اور پھر پھول کر پھٹ گئی، بدبو سے اہل محلہ کے دما غ پھٹنے لگے لیکن کوئی بھی مکہ کے سردار کو دفن کر نے کو تیار نہ تھا. جب بھی کوئی اس کے بیٹوں سے کہتا کہ شرم کرو، تمہارے باپ کی لاش سے بدبو آ رہی ہے، اُس کو دفن کرو تو وہ کہتے کہ اس کی بیماری کہیں ہمیں نہ لگ جائے، پھر بدنامی کے خوف سے لکڑیوں سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں گرا دیا گیا اور پھر دور سے پتھر مار مار کر گڑھے کو بھر دیا اور اس طرح لوگوں نے یہ عبرتناک منظر دیکھا کہ گستاخانِ رسالت ﷺ کا انجام کتنا ہولناک اور اذیت ناک ہوتا ہے. کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے اور غیر تو غیر اپنے بیٹے بھی قبر پر مٹی ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے۔