ہوم << نیا پاکستان کے دعوے اور سیاسی جماعتیں - مفتی سیف اللہ

نیا پاکستان کے دعوے اور سیاسی جماعتیں - مفتی سیف اللہ

مفتی سیف اللہ پی ٹی آئی نےایک عرصہ سے ملک میں دھوم مچائی ہوئی ہے کہ بنے گا نیا پاکستان۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ خیبرپختونخوا میں نئے پاکستان کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے. وہاں پر وہی پرانا پاکستان چل رہا ہے اور جان کی امان پاتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ خیبرپختونخوا سے نئے پاکستان کا عمل شروع کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ جب تک پورے پاکستان پہ براجمان نہیں ہوں گے، یہ خواب ادھورا رہے گا، خلاصہ یہ کہ ابھی تک یہ محض دعوی ہے۔
نون لیگ مرکز میں حکومت کر رہی ہے اور وہ شاہراہوں، عمارتوں اور اداروں کے نام تبدیل کرکے نیاپاکستان بنانے میں مصروف ہے چنانچہ نیشنل سٹیڈیم کراچی کے بارے میں یہ تجویز زیرغور ہے کہ اسے نئے پاکستان میں شامل کرنے کے لیے حال ہی میں انتقال کرنے والے دنیائے کرکٹ کے عظیم ہیرو لٹل ماسٹر حنیف محمد کے نام کے ساتھ موسوم کیا جائے۔ اس سے پہلے نیو ائیرپورٹ اسلام آباد جو کہ بن چکا ہے، اسے عبدالستار ایدھی ائیرپورٹ بنانے کی کوشش کی گئی، اور بالآخر ایک تعمیر شدہ شاہراہ کو عبدالستار ایدھی کے نام کے ساتھ موسوم کر دیاگیا۔
پیپلزپارٹی اس بارے میں اپنی مثال آپ ہے. بھٹو خاندان تیس سال سے سندھ کا حکمران چلا آرہا ہے لیکن سندھ تو کیا لاڑکانہ میں بھی کوئی ترقیاتی کام نہ کر سکا. ہاں ایک ہی عظیم الشان عمارت وہاں پائی جاتی ہے جس میں پیپلزپارٹی کے’’دشہداء‘‘ محو استراحت ہیں. جب راولپنڈی میں محترمہ کی شہادت ہوئی تو نئے پاکستان کے بہت سے مظاہر سامنے آئے، سینٹر ہسپتال کو بےنظیر بھٹو ہسپتال اور اسلام آباد ائیرپورٹ کو بےنظیربھٹو ائیرپورٹ بنا دیاگیا، مری روڈ نئے پاکستان میں شامل ہوتے ہوتے بال بال بچی جبکہ پیپلزپارٹی سندھ میں ایک بڑی شاہراہ تک نہ بنا سکی. نئے پاکستان کے لیے سندھ کے مشہور شہر نوابشاہ کا نام بدل کر اسے بےنظیرآباد بنا دیا گیا۔ تبدیلی نام کی روایت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سائیں قائم علی شاہ اگر حکام بالا کی حکم عدولی نہ کرتے تو تبدیلی کے عوامی مطالبہ پر قائم علی شاہ کا نام ہی مرادعلی شاہ رکھ دیا جاتا۔
مزید براں کئی مرتبہ ایک ہی شاہراہ، عمارت اور ادارے کے لیے سنگ بنیاد کی تختیوں پہ نام بدلتے رہتے ہیں اور بننے سے پہلے ہی وہ منصوبہ کئی لوگوں کے نام ہوکر نئے پاکستان کا حصہ بن جاتاہے۔ ہم میں اور ترقی یافتہ قوموں میں تھوڑا سا ہی فرق ہے، وہ قومی ہیروز کے نام پہ شاہراہیں، عمارتیں اور ادارے بناتے ہیں جبکہ ہم شاہراوں، عمارتوں اور اداروں کو ہیروز کے نام کر دیتے ہیں، وہ کارناموں سے قومی ہیروز کا نام روشن کرتے ہیں ہم چونکہ شارٹ کٹ کے عادی ہیں تو ہیروز ہی کا نام روشن کردیتے ہیں. کان ادھر سے پکڑو یا ادھر سے، ان کے خیال میں ایک ہی بات ہے۔
پرانے پاکستان کے بانی قائداعظم محمدعلی جناح رح نے تعمیر پاکستان کے بعد فرمایاتھا کہ اب ہمیں پاکستان کی تعمیروترقی میں لگ جانا چاہیے اور ہمارا مقصد ہو، کام کام اور صرف کام۔ مگر ہمارے نامور سیاستدانوں اورنئے پاکستان کے بانیوں نے قائداعظم کے اس فرمان کو بھی یوں بدل دیا کہ ہمارا مقصد ہے، نام نام اور صرف نام۔ اگر یہی سلسلہ بدستور چلتا رہا تو ملک کے تمام اہم مقامات یادگار بن کے نئے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے جبکہ نئے ہیروز کی یادگار کے لیے بھی انہی کو دوبارہ استعمال کیا جائےگا، اور یہ کچھ مشکل بھی نہیں، بس صرف تبدیلی نام کا اشتہار دینا ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment