ہوم << مذہبی طبقہ اور جدید آلات - اطلس کریم کٹاریہ

مذہبی طبقہ اور جدید آلات - اطلس کریم کٹاریہ

اطلس کریم مذہبی طبقے کی پسماندگی اور عوامی طور پر ناکام ہونے کی ایک وجہ ان کا جدید سائنسی آلات، نظام مواصلات اور ٹیکنالوجی کو دیر سے قبول کرنا ہے۔ مذہبی طبقہ ہمیشہ سے ہی ان اشیاء کو شروع میں استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا رہا ہے. در حقیقت نیم ملا نئے تصورات، نظریات اور ایجادات سے تراہ کھاتے ہیں یا مہذب الفاظ میں جھجکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا رویہ رجعت پسندانہ اور قدامت پسندانہ ہے.
جدید ٹیکنالوجی کو خاصی دیری کے بعد قبول کر نے سے یہ مخصوص طبقہ اس سے وہ نتائج اور ثمرات حاصل نہ کر سکا جو کرنے چاہیے تھے یا جو معاشرے کے دیگر طبقات نے حاصل کیے۔ شروع میں لائوڈ سپیکر سے ڈر کر ملا دور بھاگتے تھے اور جب ہاتھ لگایا اور دیکھا کہ ’’سائیں! یہ تو اپنے کام کا آئٹم ہے، آواز تھوڑا سا زور لگا کر بھی دور تک سنائی دیتا ہے اور ھذا گلا وی نی پھاڑنا ما قبلھا‘‘ تو اب مقرر شلعہ بیاں تقریر کے پہلے بیس منٹ تو سپیکرز اور اس کی بیس سیٹ کرنے میں صرف کرتے ہیں اور باقی کے بیس منٹ شعلے برسانے میں۔ ریل گاڑی کی تو بات ہی الگ تھی وہ کیا ہے نا ’’ھذا ابلیسی سواری و من سوار ریل گاڑی ذلک یار ابلیس و مافیھا‘‘ پھر جب سواری شروع کی تو دن میں دو دو جلسے پھگتائے گئے۔
موبائل فون نے البتہ اس طبقہ میں بہت جلدی پذیرائی حاصل کی لیکن سوشل میڈیا سے یار لوگ دور رہے، لیکن بھلا ہو فیس بک اور محترم المقام قبلہ مارک صاحب بانی، سرپرست و سجادہ نشین آستانہ عالیہ فیس بکیہ شریف کا جنہوں نے بہت سارے جعلی پیروں فقیروں کے بجھتے کاروبار کو جلا بخشی اور ان کے بجھتے چہرے چمک اٹھے اور نور کی لالٹین جگمگا اٹھی۔ وہ آج بھی یہ ترانہ بڑھے شوق سے پڑھتے ہیں
’’اے مارک تیرا احسان ہے تیرا احسان۔‘‘
اس پلیٹ فارم سے مریدوں کو بھی کافی سہولت ہوگئی ہے کہ اب وہ پیر صاحب کی سرگرمیوں سے آگاہ رہتے ہیں، پیر صاحب روز اپنی دس پندرہ تصویریں بمع تراہ والی السلفیات والشریفات پوسٹ کر دیتے ہیں اور جیالے مشرف با زیارت ہو جاتے ہیں۔ بہر حال مذاق ایک طرف لیکن یہ ایک خوش آئند قدم ہے کہ ان لوگوں نے وسعت نظری اور روشن خیالی کو اپنانا شروع کر دیا ہے وگرنہ آنے والی نوجوان نسل خشک ملا ازم اور جاہل صوفیوں سے موجودہ نسل سے زیادہ بیزار ہوتی۔ کوڑھ دماغوں کی شدت پسندی سے بچنے کے لیے احتیاطا وضاحت کرتا چلوں کہ یہاں روشن خیالی سے مراد نا تو میا خلیفہ ہے اور نا ہی داعشی خلیفہ بلکہ یہاں روشن خیالی سے مراد جدید ٹیکنالوجی اور نظریات کو اپنانا ہے۔ آنے والے دور کا مسلمان اسلام پر عمل تو سختی سے کرے گا لیکن ایک دوسرے کے خلاف تکفیری فتاوی کی جنگ سے دور رہے گا۔ اس لیے یار لوگوں کو شلوار ٹخنوں سے اوپر یا نیچے، ہاتھ باندھنے یا کھولنے، کافر یا مسلمان سے نکل کر نئے دور کے مسائل کو دیکھنا ہوگا اور ان کا حل اسی دور میں تلاش کرنا ہوگا۔ ورنہ جب تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ شلوار اوپر رکھنی ہے یا نیچے، تب تک ایف سولہ تو امریکہ سے منگوانے ہی پڑیں گے، صفائی اور کوڑا کرکٹ اٹھانے کا نظام بھی چین اور ترکی سے درآمد کرنا پڑے گا۔