ہوم << مساوات مرد و زن - ثقلین مشتاق

مساوات مرد و زن - ثقلین مشتاق

ثقلین مشتاق زندہ قومیں صدیاں گزرنے کے بعد اپنے نظریات، روایات اور عقائد پر عمل پیرا رہتی ہیں۔ ہم تھوڑی عجیب قوم ہیں جس نے اپنے نظریات اور روایات کو ترک کرکے مغرب کی تقلید کرکے خود کو زندہ قوم کہلوانے کا دعوے کردیا۔ مغرب نے مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا تو ہمارے ملک میں NGO نمائندگان اور کچھ اینکرز نے میڈیا پر مساوات مرد و زن کی تبلیغ شروع کردی۔ کچھ نام نہاد مذہبی سکالرز نے نعوذباللہ اسلام کو مساوات مرد و زن کا علمبردار قرار دیا۔ ان حضرات کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ اسلام مساوات مرد و زن کا ہرگز قائل نہیں ہے ۔
عہد نبوی سے لے کر خلافت راشدہ کی پوری تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی کہ عورت کبھی مجلس شوری کی ممبر یا کسی کلیدی اسامی پر فائز رہی ہو۔ ہمارے ملک میں مغرب کی تقلید کرتے ہوئے نظام سیاست اور دیگر امور میں عورت کو شامل ہونے کی اجازت دے دی گئی، لیکن عورت کی جسمانی ساخت اور صلاحیت ایسی نہیں کہ وہ ان معاملات میں مرد کی برابری کرے۔ جب اہل ایران نے بنت کسری کو بادشاہ بنایا تو رسولﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنا سربراہ عورت کو بنا لیا ہو.
ہمارے معاشرے کے سیکولر طبقے کے لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جو مغرب میں عورت کو حاصل ہیں۔ یہ تاثرقطعی درست نہیں، اسلام نے تو ماں کے قدموں کو جنت، بیٹی کو اللہ کی رحمت اور بیوی کو گھر کا سکون قرار دیا ہے، اور ماں کا درجہ باپ سے تین گُنا بلند بیان کیا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کو مخصوص اور الگ الگ مقام سے نوازا ہے۔ مرد کو حکم دیا کہ تم باہر کے امور سنبھالو اور بیوی بچوں کی کفالت کرو اور عورت کو حکم دیا کہ تم گھر کے اندر کے امور سنبھالو۔
مغرب نے عورت کو مساوات اور آزادی کے نام پر جو حقوق دیے، اُن کو بےحیائی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ مغرب نے عورت کو مساوات، ملازمتوں، کھیلوں، مقابلہ حُسن اور فیشن کی تقربیات کے بہانے سے گھر سے نکال کر بازار میں لا کھڑا کیا ہے۔ مردوں نے عورت کو ہوس کی کھیتی بنالیا ہے۔ مغربی عورت مساوات کی لالچ میں ہوس کے پجاریوں کے اُس چُنگل میں پھنس چکی ہے جس سے آزاد ہونا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ مساوات مرد و زن کی وجہ سے مغرب جو نتائج بھگت رہاہے، وہ بہت المناک ہیں۔ MOJ اور ONS کی تحقیق کے مطابق فرانس میں سالانہ 75000، برطانیہ میں 85000 اور امریکا میں ہر 5 میں سے 1 عورت جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے سیکولر طبقے لوگ یہ ساری حقیقت جان کر بھی نہ جانے کیوں مساوات مرد و زن کے مغربی نعرے کا علم بلند کیے ہوئے ہیں؟
نظرکو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے