ہوم << فنکار بھی تو سماج کا حصہ ہے - کامریڈ فاروق بلوچ

فنکار بھی تو سماج کا حصہ ہے - کامریڈ فاروق بلوچ

آئیے فنِ تعمیر کی بات کرتے ہیں. آج آرٹ کی دنیا میں فن تعمیر غریب الوطن ہے. لوگ ایسی عمارتوں اور آبادیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں جو آلودہ، بدبودار، پُرشور اور گنجان آباد ہیں. بدصورتی سے مزین منظر میں زندگی مقید ہے. کیا شہر کیا دیہات، رہائش گاہیں، دفاتر اور بازار بےترتیب اور بے ہنگم ہیں. جبکہ خوبصورت مناظر اور خوبصورتی محض آرٹ گیلریوں کی مردہ اور ساکت تصاویر تک محدود ہو گئی. جس سے مخصوص عوامی نفسیات جنم لیتی ہیں کہ خوبصورتی یا خوبصورت مناظر کسی دور دراز خطے یا پھر کسی دوسرے جہان کی بات ہے. یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت خوبصورتی کو ایک فکشن اور ایک خواب ہی سمجھتے ہیں.
ہماری ذہن سازی کرتے ہوئے بخالت کا ایک شائستہ مترادف تراشا گیا ہے؛ افادیت. اسی افادیت کے نام پر لوگوں کو ایک جیسے ہی دکھائی دینے والے کنکریٹ نما بلند و بالا ڈبہ عمارتوں میں رہنے پہ مجبور کر دیا گیا ہے، حالانکہ ہر انسان کے اندر ایک فنکارانہ حس ہوتی ہے اور ایک انسانی گرم جوشی ہوتی ہے. آج کے عہد میں جیومیٹری کے اصولوں کو سختی سے مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر شدہ دیوہیکل عمارتوں کی نسبت پندرہویں صدی کی جھونپڑیاں زیادہ خوبصورت تھیں. شہروں سے دور اُن جھونپڑیوں میں دیکھے گئے خواب زیادہ حسین تھے جبکہ فطرت اور فطرت کا حسن موجودہ عہد کی سمیٹریکل عمارتوں سے کہیں دور اور آگے کی بات ہے. انسان ایسے بند ڈبہ نما گھروں میں محصور ہو کر خوش نہیں ہیں.
بہت پہلے کارل مارکس شہر اور دیہی علاقوں کے درمیان انتہائی تفریق کے نقصان دہ نتائج کی طرف اشارہ کر چکا ہے. اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم انسانوں کو ماضی کی کسی خیالی جنت میں لے جانا چاہتے ہیں. ہم موجودہ بدصورتی سے نپٹنے کے لیے کسی خیالی جنت کا نظریہ نہیں دے رہے. نہ ہی ہم ٹیکنالوجی کا انکار کر رہے ہیں. ہم تو نجی مفادات کے تحت ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے خلاف لڑ رہے ہیں. نجی مفادات کے تحفظ میں اس کرہ ارض کے ماحول کو تباہ کر کے جہنم روپ دے دیا گیا ہے. ہم اس تباہی کے خلاف ہیں. بیسویں صدی کے اواخر سے انسان اس صدمے سے دوچار ہے.
فن تعمیر کی بربادی کے ہاتھوں شکست خوردہ انسان کی نفسیات ’’آرٹ‘‘ کو کوئی فضول شے سمجھنے لگ گئی ہیں. موجودہ نظامِ زر نے جسمانی محنت اور ذہنی محنت میں فرق ڈال دیا ہے. اس جھوٹے فرق کی بنیاد پہ انسانیت آرٹ سے دور ہو رہی ہے. ایک چھوٹی سی اقلیت کی طرف سے ثقافت پہ قائم اجارہ داری طبقاتی معاشرے کی پیداوار ہے. نجی ملکیت کے نظریے نے انسانوں کی اکثریت سے نہ صرف آرام دہ زندگی کا حق چھین لیا ہے بلکہ ان کے دماغ اور شخصیات کی آزادانہ ترقی کا حق بھی چھین لیا ہے.
ہمیں بتایا اور پڑھایا جا رہا ہے کہ جمالیات ایک فرسودہ مضمون ہے. ثقافت اور فنونِ لطیفہ پہ تحقیقاتی کام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے. لیکن غور کرنے پہ یہ حقیقت کھل کے سامنے آتی ہے کہ عوام کے سینوں میں جاننے، تجربات کرنے، سیکھنے اور نئے نئے افق تلاش کرنے کی خواہش موجود ہے مگر اظہار کے مواقع فراہم و دستیاب نہیں ہیں. لیکن ہمیشہ سے صورتحال ایسی نہیں تھی. قدیم سماج میں موسیقی، رزمیہ شاعری اور فنِ تقریر تک تمام مرد و خواتین کو رسائی حاصل تھی. موجودہ صورتحال کا آغاز ذہنی و جسمانی مشقت کی تفریق سے ہوا اور رہی سہی کسر لبرل ازم کی آزاد منڈی کی معیشت نے پوری کر دی.
لیکن ایک اہم بات جو تاریخی طور پہ ثابت شدہ ہے کا ذکر کرتا چلوں کہ عوامی انقلابات کے دوران عوامی کی ثقافتی، فنی اور جمالیاتی حس اپنے عروج پر ہوتی ہے. ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ انقلاب کی کیفیت میں تمام مرد و زن یہ محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہیں. 1931ء سے لے کر 1937ء کے ہسپانوی انقلاب کی مثال ہی دیکھ لیں، وہ عہد عوامی فنکارانہ ابھار کا عہد تھا. میکوڈا، البرٹی، لورژا اور میگوئل ہرنینڈس کی شاعری اُس عہد کی جدوجہد سے معمور ہے. اِن شعرا کو ملنے والی "عوامی پزیرائی" اور ’’عوامی توجہ‘‘ کی مثال ثقافت اور آرٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی. پس جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فن و ثقافت مر رہی ہے وہ غلط ہے، بلکہ فن و ثقافت کو قتل کیا جا رہا ہے. آخری تجزیے میں اِس قتل کے پیچھے بھی ایک معاشی وجہ ہے.
موجودہ عہد نے انسان کو دو وقت کی روٹی کے پیچھے لگا دیا ہے. مردہ اوزار اور زندہ انسانوں میں فرق ختم ہو چکا ہے. بےرنگ اور ایک ہی روٹین پہ چلنے والی زندگی نے انسانی سماج کو مردہ خانہ بنا دیا ہے. شاعری، موسیقی، رقص کا دور دورہ انجام کو پہنچا دیا گیا ہے. کیسے؟ دو وقت کی روٹی، معمولی رہائش اور تن ڈھانپنے کی کشمکش میں ملوث انسان شاعری، موسیقی، رقص، ثقافت اور فنون لطیفہ کو کیونکر توجہ دے گا؟ کسی کے پیٹ میں درد کے مروڑ اٹھ رہے ہوں اور آپ اسکو شاعری سنانا شروع کر دیں، نہ اُس کو سمجھ آئے گی نہ وہ توجہ دے گا.
مادی حالات ہی شعور کا تعین کرتے ہیں. ٹیکنالوجی اور ثقافت کے اشتراک پہ استوار ایک سوشلسٹ سماج موجودہ انسان کی ہیت کو یکسر بدل دے گا. سوشلزم کی جدوجہد میں فن اور سیاست کے بیچ تعلق کے معروضی جواز موجود ہیں. میری ذاتی رائے میں کیمونسٹ مینی فیسٹیو کا طالبعلم سوشلزم اور فنکارانہ تخلیق کی آزادی کی جدوجہد کو بنیادی طور پر الگ نہیں کر سکتا. خود مارکس، ھائن اور گوئٹے کی ادبیات کی قدر کرتا تھا اور اکثر اپنی تحریروں میں اُن کے حوالے دیتا تھا. مارکس تمام یورپی زبانوں کے شاعروں کا سنجیدہ قاری تھا. وہ ایسکیلس کا دلدادہ تھا. شیکسپیئر کیلیے مارکس کے دل میں گہری محبت اور عزت تھی. مارکس سمجھتا تھا کہ شیکسپیئر جیسا ڈرامہ نگار دوبارہ پیدا نہیں ہو گا. مارکس سروینٹیز اور بالزاک کے ناولوں کو بھی دلچسپی سے پڑھتا تھا. مارکس خود بھی ابتدا میں شاعری کرتا تھا. مارکس کی بیوی نے مارکس کی شاعری کو اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور کسی کو بھی دینے سے گریزاں تھی.
آرٹ انسانی جسم پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے، بہتر حالات میں مثبت اور نامناسب حالات میں منفی اثرات مرتب کرتا ہے. آرٹ کی مدد سے عوام کو اچھے اور تعمیری شہری بننے کی تعلیم دی جا سکتی ہے. فن، خاص طور پر فنونِ لطیفہ کا جمالیات سے گہرا تعلق ہے. اور یہ ایک وسیع موضوع بھی ہے. جمالیات فلسفے کی ایک صنف ہے جو فن کے حسن اور فن تنقید کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے۔ جمالیات کی اصطلاح پہلی بار باؤم گارٹن نے 1750ء میں استعمال کی اور اس سے مراد علم حیسات لی ، جس کا بنیادی مقصد حسن کی تلاش قرار دیا ۔ کانٹ نے ماورائی جمالیات کی ترکیب استعمال کی جس سے حیساتی تجربے کے بنیادی اصول لیے۔ اس اصطلاح کے جدید معنی ہیگل نے 1820ء میں متعین کیے ۔ پرانے زمانے میں جمالیات سے مراد وہ علم تھا جو حسن یا جمال اور رفعت کی ہیئت سے متعلق مجرد تصورات پر بحث کرتا تھا۔ مگر جدید فلسفہ کے نزدیک جمالیات وہ سائنس ہے جو تخلیقی تجربہ ، تحربۂ حسن اور نقدونظر کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے اور نوعیت اور عمل کے اعتبار سے منطق اور نفسیات سے مختلف ہے۔
اکثر نظریہ دان آرٹ کو خیالِ مطلق(absolute) تصور کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں کیونکہ وہ جمالیات، آرٹ اور اِنکے باہمی تعلق کو مادی حقائق سے مبرّا سمجھتے ہیں. کسی بھی نوع کے فن کی ترویج، نشوونما اور زوال اُس وقت تک سمجھ نہیں آئے گا جب تک اُس کا مطالعہ انسان کے سماجی وجود سے جوڑ کر نہیں کیا جاتا. جدلیاتی نقطہ نظر کے مطابق آرٹ کو صرف سماج کے کلی تجزیے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے. مارکسی تعلیمات کے مطابق آرٹ سماجی شعور کی ایک شکل ہے اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجوہات کو انسان کے سماجی وجود میں تلاش کر نا چاہیے. اس حوالے سے 1844ء میں مارکس کی اشاعت "معاشی اور فلسفیانہ مسودات" بہت اہمیت کی حامل ہیں.
اینگلز نے اپنی مشہور کتاب ’’فطرت کی جدلیات‘‘ میں لکھا کہ ’’محنت نے انسان کو وہ کمال عطا کیے جو رافائیل کی مصوری، تھوروالڈسن کے مجسموں اور پیگنینی کی موسیقی کی تیاری کیلیے درکار تھے.‘‘ لہذا ہمیں مکمل اعتماد ہے کہ انسانی جمالیات کوئی پیدائشی امر نہیں ہے بلکہ سماجی حالات ہی انسانی جمالیات کا تعین کرتے ہیں. ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آرٹ اور آرٹ کے قوانین کی تعمیر، ترقی اور زوال مادی دنیا اور انسانی سماجی ڈھانچے کے تحت متعین ہوتی ہیں.
ہر عہد کا آرٹ اپنے پہلے والے عہد سے مختلف ہوتا ہے اور آنے والے عہد سے بھی مختلف ہو گا. کسی بھی عہد کا آرٹ اُس عہد کے حالات کے مطابق ایک مخصوص شکل اپناتا ہے، لیکن اگر وہی فنکار کسی دوسرے عہد میں ہوتا تو شاید ایسی ہی فنی تخلیق کاری نہ کر سکتا تھا. یہی وہ وجہ ہے کہ مختلف ادوار کی فنی تخلیقات اپنے آپ کو دہراتی نہیں. کیا آج کے عہد اور معروضی حالات کے تحت قدیم یونان جیسی شاعری کرنا ممکن ہے؟ نہیں، بالکل نہیں.
لیکن ایسا بھی نہیں کہ آرٹ معاشی نظام کی ایک مجہول پیداوار ہے. مثال کے طور پر جیسے ہی سرمایہ داری کے تضادات اور فنکار کے میلانات آپس میں ٹکرائیں گے، فن کار بغاوت پہ اترنا شروع ہو جائے گا. فنکار بھی تو سماج کا حصہ ہے.

Comments

Click here to post a comment