ہوم << آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون- دوسرا اور آخری حصہ

آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون- دوسرا اور آخری حصہ

محمد مشتاق
اس اہم مضمون کا پہلا حصہ پڑھیں
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی قابض طاقتیں کمزور ہوگئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ، مشرق بعید اور لاطینی امریکا میں ان کے خلاف مزاحمت میں مزید شدت آتی گئی۔ اس دوران میں بین الاقوامی سطح پر حالات کی تبدیلی میں ایک اور عامل نے اہم کردار ادا کیا اور وہ تھا روس کا امریکا اور مغربی طاقتوں کے مد مقابل کے طور پر سامنے آنا۔ 1949ء میں روس کی مدد سے چین میں کمیونسٹوں نے امریکی اتحادی نیشنلسٹ حکومت کو شکست دے کر عوامی جمہوریۂ چین کی تشکیل کا اعلان کیا۔ 1950ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شمالی کوریا پر حملہ کیا جسے روس اور چین کے تعاون سے پسپا کیا گیا اور بالآخر جنگ بندی کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔
1956ء میں نہر سویز کے تنازعے کے موقع پر اگرچہ روس نے مصر کی مدد نہیں کی لیکن اس موقع پر امریکا نے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے ان کو واپس ہونے پر مجبور کیا اور اس تنازعے کے بعد برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطی میں اپنے کئی اڈے ختم کرنے پڑے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے امریکا اور روس میں دوڑ شروع ہوئی۔ کئی عرب ممالک میں اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی کشمکش نے جلد ہی افریقہ اور ایشیا کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو قابض طاقتوں کا نظام سمجھا جاتا تھا اس لیے ان علاقوں میں قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لوگوں نے اشتراکی نظام میں کافی کشش محسوس کی۔ دوسری طرف چینی گوریلا مزاحمت کار بھی ان کے لیے نمونہ اور ماڈل بن گئے۔ اس لیے ان علاقوں میں ”قومی آزادی“ کی تحریکوں اور اشتراکیت نے مل کر ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں نے باقاعدہ مسلح جد و جہد بھی شروع کی اور ایک دفعہ پھر قومی آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے درمیان موازنہ کیا جانے لگا۔ تاہم اب توازن کا رخ قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے حق میں تھا۔ اس پس منظر میں 1960ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں کے لیے مشہور ”اعلان آزادی“ (Declaration of Independence) کیا۔
اس قرارداد میں ایک طرف یہ بات تسلیم کی گئی کہ حق خود ارادیت سے انکار بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتا ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اوپر سے ”غیروں کے تسلط“ (Alien Domination) کا خاتمہ کیا جائے، تو دوسری طرف اس قرارداد میں اس حقیقت پر بھی زور دیا گیا کہ کئی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ کئی دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریکیں دن بدن زور پکڑتی جارہی ہیں اور ان کو دبانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں ”تمام لوگوں“ کے لیے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا۔ پھر بالخصوص مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے لیے اس بنیادی انسانی حق کے تحفظ اور نفاذ کو لازمی اور دنیا کے امن کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کے لیے نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا خواہ وہ سیاسی، معاشی یا تعلیمی طور پر پسماندہ ہوں۔ ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام مقبوضہ علاقوں سے غیروں کے قبضے کو پوری طور پر ختم کردیا جائے۔ البتہ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت کی پابندی کو اس قرارداد میں بھی دہرایا گیا تاکہ آزادی کی تحریکوں کی مدد کے بہانے سے ریاستیں دوسری ریاستوں میں مداخلت کرکے عالمی عدم استحکام کا باعث نہ بن سکیں۔
تقریباً انہی باتوں کو اگلے کئی سالوں تک دیگر اہم قراردادوں میں دہرایا گیا۔ ان میں ایک اہم قرارداد 1970ء میں منظور کی گئی جس کا عنوان تھا: بین الاقوامی قانون، ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون کے قواعد عامہ کا اعلان“ (Declaration of the Principles of International Law, Friendly Relations and Cooperation between States)۔ اس قرارداد میں حق خود ارادیت کے حوالے سے دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی گئی کہ حق خود ارادیت کی جد و جہد کے تین قانونی نتائج نکل سکتے ہیں:
۱۔ آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام؛
۲۔ کسی دوسری ریاست کے ساتھ آزادانہ الحاق؛
۳۔ کسی اور سیاسی حیثیت کا تقرر جو لوگوں کی آزادانہ مرضی سے ہو۔
1967ء کے بعد سے اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا کیونکہ اب جہازوں کا اغوا کرنا، لوگوں کو یرغمال بنانا اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے قابض طاقت کو مادی اور نفسیاتی نقصان پہنچانے کا سلسلہ تیز ہوا۔ اسرائیل اور دیگر ریاستیں اسے دہشت گردی کا نام دیتی رہیں اور اس طرح ”بین الاقوامی دہشت گردی“ (International Terrorism) کی اصطلاح بھی مستعمل ہونے لگی۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972ء میں ایک اہم قرارداد منظور کی جس کا عنوان تھا: ”بین الاقوامی دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقدامات“ (Measures to Prevent Internatioal Terrorism)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس قرارداد کا عنوان دہشت گردی کا تدارک تھا لیکن اس میں پھر حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ قرارداد کے مکمل عنوان میں دہشت گردی کے اسباب کا بھی ذکر کیا گیا:
Measures to prevent international terrorism which endangers or takes innocent human lives or jeopardises fundamental freedom, and study of underlying causes of those forms of terrorism and acts of violence which lie in misery, frustration, grievance and dispair and which causes some people to sacrifice human lives, including their own, in order to affect radical changes
(دہشت گردی، جو معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے اور بنیادی آزادیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، کی روک تھام کے لیے اقدامات اور دہشت گردی اور متشددانہ کاروائیوں کی ان اقسام کے اسباب کا مطالعہ جن کی جڑیں بے بسی، پریشانی، احساس محرومی اور مایوسی میں پائی جاتی ہیں جو بعض لوگوں کو ان کی اپنی زندگی سمیت دیگر انسانوں کی زندگیوں کی بھینٹ اس مقصد کے لیے دینے پر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں۔ )
یہ عنوان سالہاسال تک کئی قراردادوں کو دیا گیا۔ اس عنوان کے ساتھ آخری قرارداد دسمبر 1989ء میں منظور کی گئی۔
1974ء میں جنرل اسمبلی نے ایک اور اہم قرارداد منظور کی جس کے ذریعے ”جارحیت“ (Aggression) کی تعریف پیش کی گئی۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے تحت جارح ریاست کے خلاف سلامتی کونسل کو اجتماعی فوجی کاروائی کا اختیار ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کی دفعہ ۷ میں تصریح کی ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں یا ان کی مدد کرنے والوں کو جارحیت کا مرتکب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ ایک دفعہ پھر ریاستوں کو یاد دلایا گیا کہ دیگر ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت ناجائز ہے۔
1977ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو اضافی معاہدات ملحق کیے گئے اور ان اضافی پروٹوکولز میں پہلا پروٹوکول بین الاقوامی مسلح تصادم کے دوران میں عام شہریوں کے تحفظ کے متعلق ہے۔ اس پروٹوکول کی ایک اہم شق یہ ہے کہ آزادی کی جنگ کو ”بین الاقوامی مسلح تصادم“ قرار دیا گیا۔ چنانچہ کوئی ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے زیر تسلط علاقے میں جاری آزادی کی جنگ اس کا ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ مزید برآں، اس پروٹوکول نے ”مقاتل“ (Combatant) کی تعریف میں وسعت پیدا کرکے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بھی مقاتل کی حیثیت دی اور قرار دیا کہ قید ہونے کی صورت میں انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو جنگی قیدی کو حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس پروٹوکول نے تصریح کی کہ بعض ناگزیر حالات میں مقاتل باقاعدہ یونیفارم پہنے بغیر بھی لڑ سکتا ہے بشرطیکہ وہ حملے کے وقت واضح طور پر مسلح ہو اور غدر (Perfidy)کا ارتکاب نہ کرے۔ اس طرح اس نے گوریلا طرز کی جنگ کو بہت حد تک قانونی حیثیت دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں اور ماہرین قانون بالعموم اس پروٹوکول کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان شقوں کی ایسی تعبیر پیش کی جائے کہ یہ عملاً غیر مؤثر ہوجائیں۔
اس دوران میں ”ریاستی دہشت گردی“ (State Terrorism) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل ہوگئی لیکن اس اصطلاح کو دو مختلف، بلکہ متضاد، مفاہیم میں استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک مفہوم کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے والی ریاستوں کو ریاستی دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتا رہا، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا جاتا رہا۔ 1984ء میں جنرل اسمبلی نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف جو قرارداد منظور کی اس میں اس اصطلاح کو ان دونوں مفاہیم میں استعمال کیا گیا۔ اس لیے صحیح قانونی پوزیشن واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی۔
دسمبر 1979ء میں روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں اور 1980ء کی دہائی میں روسی قبضے کے خلاف افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی اس نے آزادی کی تحریکوں اور معاصر دنیا میں جہاد کے تصور، نظریے اور تطبیق پر نہایت دور رس اثرات مرتب کیے۔ روس کے خلاف مزاحمت نے عالمی سطح پر غیر وں کے تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کی تحریکوں کو بہت تقویت دی، بالخصوص جب 1989ء میں روس کو افغانستان سے فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔ 1989ء میں ہی مغربی اور مشرقی جرمنی کا الحاق ہوا اور دیوار برلن گرادی گئی۔ خود روس کی بڑی ریاست شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔
1990ء کی دہائی میں عالمی سطح پر دوررس اثرات کی حامل کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
عراق نے کویت پر اگست 1990ء میں قبضہ کیا اور امریکا نے اس کے خلاف کاروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری حاصل کرنی چاہی تو روس اور چین اس کی مزاحمت نہیں کرسکے۔ چین تو ویسے بھی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن روس کی جانب سے عدم مزاحمت عراق کی حکومت کے لیے نہایت حیرت کا باعث بنی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روس اندرونی طور پر انتہائی سنگین نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کی طویل اور غیر ضروری مہم جوئیوں نے اس کی معیشت تباہ کردی تھی اور بالخصوص افغانستان کی مہم جوئی اس کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کویت کو ”آزاد کراکے“ آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا مفہوم دیا۔
دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا اور کئی ایسی ریاستیں وجود میں آگئیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ افغانستان کی جنگ کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے ان ریاستوں کا رخ کیا لیکن وہاں ”اسلامی حکومت“کے قیام کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں کی حکومتیں اس راہ میں مزاحم تھیں۔ اس دوران میں مشرقی یورپ میں بڑی کمیونسٹ ریاست یوگوسلاویا بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی اور جلد ہی چار الگ ریاستوں ۔ سربیا، کروشیا، بوسنیا اور مونٹے نیگرو ۔ میں تقسیم ہوگئی۔ ان ریاستوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی۔ بالخصوص بوسنیا پر سربیا کے مظالم نے ظلم و عدوان کی ایک نئی داستان رقم کی۔ افغان جنگ کی تربیت نے یہاں بھی کردار ادا کیا اور یہاں بھی آزادی کی جنگ کے ساتھ جہاد کے نعرے لگائے گئے۔
یورپی یونین نے یوگو سلاویا کی شکست و ریخت کے بعد وجود میں آئی ہوئی ریاستوں کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی شرائط رکھیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو خصوصی اہمیت دی گئی۔
چنانچہ یورپی یونین کے ثالثی کمیشن نے حق خود ارادیت کے حوالے سے قرار دیا کہ بعض لوگوں کو اس حق کا ”پہلا درجہ“ حاصل ہے اور بعض کو ”دوسرا درجہ“۔ پہلے درجے کے حق خود ارادیت (First Level Self-determination) سے مکمل آزادی کا حق مراد لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ وفاقی ریاست کے صوبوں کو یہ حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ ریاست کے عناصر اربعہ حاصل کرسکتے ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ وفاقی ریاست کے صوبے کے پاس تین عناصر (زمین کا معین ٹکڑا، مستقل آبادی اور حکومت) تو پہلے ہی سے ہوتے ہیں۔ پس اسے ضرورت صرف چوتھے عنصر (دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت) کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس چوتھے عنصر کے حصول کی راہ میں وفاقی حکومت مزاحمت کرے گی۔ پس اس طرح آزادی کے حصول کی کوشش لازماً جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ اس میں جہاں آزادی کے حصول کی خواہشمند صوبے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے وہاں دوسری ریاستوں کا تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں یکطرفہ ٹریفک نہیں چلاکرتی۔ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون ضروری اور ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے مکمل آزادی کا یہ حق ان لوگوں کے لیے موجود ہی ہے جو غیروں کے تسلط کے تحت ہوں یاجن کے لیے سلامتی کونسل نے یہ حق تسلیم کیا ہو۔
دوسرے درجے کے حق خود ارادیت (Second Level Self-determination) سے ثالثی کمیشن کی مراد یہ تھی کہ بعض لوگوں کو مکمل آزادی کا حق تو نہیں دیا جاسکتا لیکن اندرونی خود مختاری اور مذہب و ثقافت اور شناخت کا تحفظ ان کا قانونی حق ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل آزادی اور الگ ریاست کی تشکیل کے بجائے اندرونی خود مختاری کی راہ تجویز کی گئی۔
1990ء کی دہائی میں کشمیر میں حق خود ارادیت کی جد و جہد نے ”آزادی کی جنگ“ کی صورت اختیار کرلی۔ 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد سے بھارت کا سرکاری موقف یہ رہا کہ کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں غیر مؤثر اور غیر متعلق ہوگئیں کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان اور بھارت نے مان لیا تھا کہ وہ تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اور کوئی فریق کسی تنازعے کو بین الاقوامی فورم پر دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر نہیں لے جائے گا۔1990ء کی دہائی میں پاکستان کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی امن کے لیے خطرے (Threat to International Peace) کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ عالمی دباؤ کے پیش نظر بھارت مذاکرات کی میز پر آکر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش پر آمادہ ہوجائے۔ 1998ء میں جب دونوں ریاستوں نے یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کیے تو عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا ہوا جسے 1999ء کی کارگل جنگ نے مزید شدید کردیا۔ تاہم کارگل کی جنگ میں پاکستان کی فوج کی حکمت عملی انتہائی حد تک ناقص تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔
1990ء کی دہائی کا ایک اور اہم مسئلہ چیچنیا کا تھا۔ وہاں بھی روسی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی جس کے جواب میں روس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے اور چنگیز و ہلاکو کی یاد تازہ کردی۔ اسی طرح البانیا اور کوسووا میں بھی غیروں کے تسلط اور ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی۔ امریکا اور اس کے اتحادی چیچنیا میں روس کے خلاف کچھ نہیں کرسکے لیکن 1998ء۔ 1999ء میں نیٹو نے سربیا پر بمباری کرکے اس کے مظالم کا سلسلہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اگرچہ اس بمباری میں مقامی آبادی کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور قانونی لحاظ سے بھی اس کاروائی کا جواز مشکوک تھا۔ تاہم اس کاروائی کی وجہ سے آزادی کی جنگ میں فوجی مدد فراہم کرنے کے مسئلے پر بحث کرنے والوں کو ”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت“ کے جواز اور عدم جواز پر بھی بحث کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ستمبر 2001ء امریکا میں رونما ہونے والے حادثات کے بعد امریکا نے ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ (Global War on Terror) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس جنگ کے پہلے مرحلے میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی گئی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ اس کے بعد 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے اس تجربے کو وہاں بھی دہرایا گیا۔دونوں ممالک میں اس قبضے کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلسل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی کی من پسند تعبیر جبراً پوری دنیا پر نافذ کی جائے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے جد و جہد، غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جنگ کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے اور پچھلی پوری صدی میں بین الاقوامی قانون نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی اس کو کالعدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم، جیسا کہ آگے ہم دیکھیں گے، بین الاقوامی قانون کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس طریقے سے غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کے جذبے اور جد و جہد کو دبایا جاسکتا ہے۔ کئی ماہرین قانون کے نزدیک آزادی کا حق بین الاقوامی قانون کے ان بنیادی قواعد (Jus Cogens) میں شامل ہوچکا ہے جنہیں کسی معاہدے کی صریح شق کے ذریعے بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
آزادی کی جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کی تقریباً سوا سو سال کی تاریخ کے اس جائزے کے بعد اس قانون کی رو سے اس مسئلے کا قانونی تجزیہ آئندہ پیش کریں گے ، ان شاء اللہ ۔

Comments

Click here to post a comment