ہوم << ذوالفقار چیمہ کی خدمت میں - معظم معین

ذوالفقار چیمہ کی خدمت میں - معظم معین

معظم معین ا گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک نیک نام سابقہ پولیس افسر جناب ذوالفقار احمد چیمہ جو ایک معاصر اخبار میں وقتا فوقتا کالم لکھتے رہتے ہیں اور جن کے کالم ہم جیسے بہت سے نوجوانوں کے لیے source of inspiration ہوتے ہیں، نے ایک کالم میں اپنے ایک پولیس مقابلے کا ذکر بڑے فخریہ انداز میں کیا جو بظاہر ایک ماورائے عدالت قتل کا واقعہ معلوم ہوتا تھا۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے جرم کی واردات اور پھر مجرموں کو پکڑنے کی کارگزاری کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کے اس اقدام سے عوام خوش ہوئی اور پھر پولیس افسران کی ترقیاں ہوئیں۔ ہماری پولیس جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام بڑے دھڑلے سے کرتی ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن یوں اسے مثال بنا کر فخریہ عوام اور آئندہ آنے والے نئے پولیس افسران کے سامنے پیش کرنا ایک مہذب معاشرے میں زیب نہیں دیتا۔ ہمارے قانونی نظام کی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ ناجائز دھندوں میں مشغول رہتے ہیں لیکن یوں ڈنکے کی چوٹ پر ایک غیر قانونی اقدام کو کارنامے کے طور پر پیش کرنا کوئی اچھی مثال نہیں۔ غلط چیز غلط ہی ہے خواہ ہمیں کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو۔
اگر ایک پولیس افسر کو اس بات کا حق دے دیا جائے کہ وہ خود یہ یقین حاصل کرنے کے بعد کہ مجرم واقعتاً مجرم ہے، اسے سزا سنائے اور ماورائے عدالت اس پر عمل کر گزرے تو پھر ایک عام شریف شہری جو بعض اوقات کسی پولیس والے سے زیادہ معاملہ فہم ہو سکتا ہے کو کیوں اس بات کا حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بھی خود یقین حاصل کرے کہ ملزم مجرم ہے اور کسی بھی مجرم کے بارے میں فیصلہ سنا دے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کر گزرے۔ سزا کا مقصد فقط کسی مجرم کو اس کے انجام تک پہنچانا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے معاشرے کے دیگر مجرموں کو سبق دلانا اور قانون کی دھاک بٹھانا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایک مرتبہ ایک بچے کے قاتلوں کو برسر عام پھانسی کے پھندے پہ لٹکایا گیا تھا تو اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک ایسا کوئی جرم سامنے نہیں آیا تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے غلط پولیس مقابلوں کے بعد جرائم میں کوئی کمی نہیں آتی۔
در حقیقت قانون شکنی سے کبھی بھی قانون نافذ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اب تک ہونے والے ان گنت ایسے ہی پولیس مقابلوں کے بعد ملک میں خاطر خواہ امن قائم ہو چکتا اور لوگ سکون کی نیند سو رہے ہوتے اور دھڑادھڑ بچے اغوا نہ ہو رہے ہوتے۔ ایماندار پولیس افسروں کا ایسا رویہ بدعنوان افسروں کے لیے خود سے ناجائز فیصلے کرنے کا دروازہ کھولتا ہے۔ اکثر شک کی بنیاد پر ہماری پولیس بےگناہوں کو پکڑتی ہے اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ یاد دہانی کے طور پر ایک حدیث مبارکہ پیش خدمت ہے
فرمایا کہ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا اچھا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ پھر ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لئے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ‘‘ (تفسیر کبیر ج6ص225)
اس حدیث کی روشنی میں کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ عدالت کے بجائے خود فیصلے کی میزان اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے کرنے لگے۔ ہمارے دین میں تو ننانوے قتل کرنے والے کے لیے بھی توبہ کی گنجائش بتائی گئی ہے گو کہ وہ اسے دنیاوی قانون کی سزا سے نہیں بچا سکتی لیکن عجلت میں انصاف قائم کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لادنا واقعتا ایک بڑی جسارت معلوم ہوتی ہے۔
ہماری عدالتوں کی حالت زار کا بھی اس سے پتا چلتا ہے کہ خود قانون کے رکھوالوں کو بھی ان ہر اعتبار نہیں۔ ہماری عدالتیں بھی عجیب عدالتیں ہیں جہاں جب دیکھو جج چھٹیوں پر گئے ہوتے ہیں اور اس دوران انصاف کی بھی چھٹی ہوتی ہے۔ اب ہم کیا عرض کریں عدالتوں کے منصفین کو خود ہی اس پر غور کرنا چاہیے

Comments

Click here to post a comment