ہوم << اغواء اور قانون - مفتی سیف اللہ

اغواء اور قانون - مفتی سیف اللہ

مفتی سیف اللہ اس وقت ملک کے طول و عرض سے بچے اغوا ہو رہے ہیں اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہےگا۔ بچوں میں ایک خوف وہراس کا عالم ہے، والدین انہیں سکول بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں کہ نجانے کسی وقت کیا ہوجائے۔ ایسی صورتحال میں والدین اپنے معمولات زندگی اور بچے اپنی پڑھائی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ پہلے سے ہی دیگر بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں، ان کےنزدیک اس کی حیثیت اتنی ہے کہ ملکی مسائل میں مزید ایک مسئلے کا اضافہ ہوا ہے اور بس۔
کچھ نشریاتی اداروں نے اس جرم کے خلاف قانون سازی کے لیے عوامی رائے طلب کی تو مسائل سے گھرے عوام نے بھرپور طریقہ سے اس میں حصہ لیتے ہوئے تقریبا متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ بچوں کو اغوا کرنے کے جرم کی سزا موت ہونی چاہیے۔ یہ بالکل بجا اور مناسب تجویز ہے، اس درندگی میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہونے چاہییں۔
اور اگر بغور دیکھا جائے تو یہ زمانہ جاہلیت کی رسم بد کا تسلسل ہے کہ جس میں وہ تنگدستی کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل کر دیتے تھے. قرآن کریم نے اسے سختی سے روکا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات سے اس کی ممانعت فرما کر بچوں سے شفقت و محبت کی عملی تعلیم دی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے وہ ہماری امت میں سے نہیں۔ تو اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اغواء کے جرم کی سزا موت مقرر کی جائے۔
اغوا جیسے جرم کی قباحت کھل کر ہمارے سامنے ابھی آئی ہے لیکن یہ جرم ہمارے معاشرے میں بکثرت پایا جاتا ہے حتی کہ ہم نے قانون کو بھی اغوا کر لیا ہے. معاشرہ میں عدل وانصاف کا فقدان ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح جنگل کا قانون رائج ہے، امیر اور غریب کے لیے الگ قانون ہے جیسا کہ ارسطو نے کہا کہ قانون ایک ایسی چیز ہے جو غریبوں کو پیستا ہے اور امیر اسے پیستے ہیں، گویا امیروں نے قانون کو اغوا کر رکھا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے معاشرہ میں عرصہ دراز سے پائی جاتی تھی لیکن اب تو یہ معاملہ بہت سنگین ہوچکا ہے کہ اب تو ہر کسی نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے چنانچہ حالیہ اغوا کی وارداتوں ہی کو دیکھ لیجیے کہ جہاں کسی کے بارے میں ذرا شبہ ہوا کہ اغواکار ہے تو اس کی درگت بنا ڈالی. ایک شہر میں ذہنی مریضہ کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا گیا، جو لوگ خصوصی دیکھ بھال کے مستحق ہوتے ہیں، انہیں بھی نہ بخشا گیا. ایسے لوگ اغوا کاروں سے بدتر ہیں کیونکہ وہاں پھر بھی مغوی کو بازیاب کروایا جاسکتا ہے مگر ان کے ہتھے جو چڑھ جائے تو جب تک جان سے مار نہ ڈالیں، انہیں چین نہیں آتا. ہر شخص ملک وقوم کی خدمت اور کار ثواب سمجھ کر اس میں حصہ ڈالتا ہے. اگر اس رویہ کو نہ روکا گیا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہ ہوگا.
ملک میں قانون اور ایسا آئین موجود ہے جو اسلامی تعلیمات اور روح کے عین مطابق ہے لیکن پھر ہمارے معاشرہ میں افراتفری، بےچینی اور بدانتظامی کی وجہ یہی ہے کہ قانون پہ عملدرآمد نہیں ہے اور جب قانون کا عملی نفاذ نہ ہو تو وہ یا کتابوں میں ہوتا ہے یا لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جس کامشاہدہ آئے روز ہو رہا ہے۔ ارباب اقتدار سے ایک بار پھر پرزور مطالبہ ہے کہ اکثریتی عوام کی رائے اور تجویز کےمطابق اغوا کی سزا موت مقرر کی جاۓ مگر اس امید اور التجا کے ساتھ کہ اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ قانون بھی اغوا ہوجائے۔