ہوم << جہالت کے کیڑے - ماجد عارفی

جہالت کے کیڑے - ماجد عارفی

مذہب کے نام پر درندگی ہمارے معاشرے میں کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ پل بھر میں سیکڑوں جانوں سے خون کی ہولی کھیلنے والے انسان نما درندے کہیں نہ کہیں گھات لگا کر اپنی مذموم کاروائیوں سے قوم کو سوگ میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے کی ایسی اوچھی حرکتوں کو سند جواز پیش کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مذہب کے نام پر لوگوں سے کھلواڑ کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کا خاصہ نہیں، اس کی مثالیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں بھی ملتی ہیں۔
پچھلے دنوں بھارت میں کالج کی ایک پڑھی لکھی طالبہ ’’آرتی دوبے‘‘ نے ’’کالی دیوی‘‘ کے نام پر اپنی زبان ’’دان‘‘ کردی۔ تفصیلات میں جائیں تو اس لڑکی کو خواب میں بتایا گیا کہ اگر تم اپنی زبان کالی دیوی کے نام پر وار دو تو تمھاری ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ بھلا زبان جیسی عظیم نعمت سے ہاتھ دھونےکے بعد دنیا کی ’’ہر خواہش‘‘ پوری ہونے کا کیا فائدہ؟ قرآن مجید کی اگرچہ یہ تعلیمات ہیں کہ دوسرے مذاہب کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو، لیکن بچاریوں کے ’’تقدس‘‘ یا ان کی ’’معصومیت‘‘ کا کہیں کوئی دفاع نہیں کیاگیا۔
ایک اور واقعہ محترم آصف محمود کی وال پر پڑھنے کو ملا:
’’ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا شیوانا (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا: میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی، معصوم سی بہن کو قربان کر دے۔ آپ مہربانی کر کے اُس کی جان بچا دیں۔
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ہیں اور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھ بند کیے کچھ پڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود معبدکدے کے بُت اور کی خوشنودی کے لیے اُس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔
شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے۔ عورت نے جواب دیا: کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔
شیوانا نے مسکرا کر کہا: مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟ اسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارداہ کیا ہے۔ تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ہو۔ یہ بُت احمق نہیں ہے، وہ تمہاری عزیزترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے۔ تم نے اگر کاہن کے بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بُت تم سے مزید خفا ہو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے۔
عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ھاتھ پاؤں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی۔ مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔‘‘
ہمارے شہر کے قریبی گاؤں میں ایک صاحب کے بیٹی کو آسیبی مسئلہ تھا۔ سمندری سے ایک نام نہاد عامل کو بلایا گیا تو جناب نے عجیب ہندسہ 37700 پر مشتمل نقد رقم وصول کی اور سمندری سے ساہیوال آنے جانے کا کرایہ الگ سے 1500 وصول کیا۔ کھانا اس کے علاوہ تھا۔ موصوف جب تک گھر میں رہے ، بچی کو کچھ افاقہ رہا، جب گئے تو ابھی ساہیوال کی حدود سے بھی نہیں نکلے ہوں گے کہ پھر وہی آسیبی مسئلہ آن درپیش ہوا۔
ان معاملات میں جہاں عوام کی جہالت کارفرما نظر آتی ہے وہی مذہب کے نام پر دھندہ کرنے والوں کی کارستانیاں بھی شامل ہیں۔ مذہب کے نام عوام کی جان و مال سے ہاتھ کرنے والوں کی مثال ان کیڑوں کی سی ہے جو پیالے میں پڑے رہتے ہیں اور جو کیڑا برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے وہ اس کی ٹانگ کھینچ کر اسے پھر پیالے میں گرا دیتے ہیں۔ جب تک اہل علم عوام کی صحیح رہنمائی نہیں کریں گے تب تک یہ ’’جہالت کے کیڑے‘‘ یونہی عوام کو کاٹتے رہیں گے۔

Comments

Click here to post a comment