ہوم << سیکولر دوستوں کی خدمت میں دس سوال - مجذوب مسافر

سیکولر دوستوں کی خدمت میں دس سوال - مجذوب مسافر

مجذوب مسافر بطور پاکستانی شہری اور مسلمان، ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام ریاستی اداروں کے ساتھ، نیکی میں تعاون اور برائی میں کوئی تعاون نہیں کی پالیسی پر عمل کریں. یہی اسلام کا حکم اور سلامتی کا راستہ ہے. آئین و قانون کا احترام کرنے والے شہری کسی ریاستی ادارے کے ساتھ نہ تو لڑائی کرتے ہیں اور نہ انہیں ایسا کرنا چاہیے کہ اس سے ریاست اور خود شہریوں کا سراسر اپنا نقصان ہوتا ہے.
ضیاءالحق کے معاملے میں اس وقت جو رویہ بعض لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اخلاق کے کسی معیار پر کسی بھی صورت پورا نہیں اترتا بلکہ علمی و تاریخی لحاظ سے بھی اس میں بے شمار جھول ہیں. لوگ آمریت کے بارے میں میرے خیالات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں کسی بھی صورت عوام کے اجتماعی ضمیر پر’’بوٹوں‘‘ کی فوقیت کو جرم عظیم سمجھتا ہوں. اسی طرح میں ضیاء الحق مرحوم کو بھی کسی صورت ’معصوم عن الخطاء‘ نہیں سمجھتا. انہوں نے اگر کچھ اچھے کام کیے تو کچھ غلط بھی کیے. اب وہ اپنا نامہ اعمال لے کر اپنے اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں. ہم اس دنیا سے حالت ایمان میں رخصت ہونے والوں کے لیے صرف دعائے مغفرت کر سکتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے. تاہم انہوں نے جو فیصلے کیے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دور کے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پوری نیک نیتی کے ساتھ ان کے فیصلوں اور پھر ان فیصلوں کے نتائج کا دیانتدارانہ تجزیہ، بغیر کسی فکری، نظریاتی، سیاسی تعصب کے، کریں اور ان کے ساتھ ’جو ہے اور جیسا ہے‘ کا معاملہ کریں. ہم جو نتائج بھی اخذ کریں، اس کے ذریعے آئندہ کے لیے اپنی مستقبل گری میں مدد لیں. جو چیز اچھی ہو وہ لے لیں اور جو غلط ہو اس سے بچ کے رہیں. ہم بلاوجہ و بلا تحقیق کسی کے بارے میں اور کسی کے فیصلوں کے بارے میں آراء قائم کر کے اپنے نفس کو اور اپنے ہم خیال لوگوں کو تو کچھ عرصے کے لیے خوشی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں لیکن یاد ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ حقیقت ایک نہ ایک روز سامنے آ کر رہتی ہے. اور ہاں! اللہ کے حضور تو سب کا نتھارا ہو ہی جانا ہے.
بطور ایک مسلمان اور پاکستانی شہری میرے سیکولر دوستوں سے کچھ سوالات ہیں:
١- ضیاءالحق اور پرویز مشرف دونوں نے غیرقانونی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کیا. کیا آپ کی نظر میں دونوں کا جرم ایک جیسا ہے یا پھر مشرف تو قابل معافی ہے اور ضیاءالحق مجرم؟
٢- ضیاءالحق نے نوے دن میں الیکشن کا وعدہ کیا اور پھر پوری قوم کو دھوکہ دیتے ہوئے وعدے سے پھر گیا. یہی کام مشرف نے کیا اور وردی اتارنے کا وعدہ کر کے مکر گیا. کیا آپ کی نظر میں دونوں دھوکہ باز ہیں یا نہیں؟
٣- ضیاءالحق اور مشرف نے اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ریفرینڈم کروائے. کیا آپ دونوں کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کریں گے؟
٤- ضیاءالحق نے اپنے دور میں (اپنی اور بین الاقوامی ضرورتوں کے تحت) اسلام پسندوں کو کچھ ’ریلیف‘ دیا. اسی طرح مشرف نے (اپنی اور بین الاقوامی ضرورتوں کے تحت) اسلام بیزاروں، سیکولرز اور لبرلز کو’پروموٹ‘ کیا. دونوں میں اصولی و قانونی طور پر کیا فرق ہے؟
٥- سب جانتے ہیں کہ مشرف نے افغانستان اور کشمیر کے معاملے پر غلط فیصلے کیے، متحدہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو نئی زندگی بخشی، پاکستان پر ایک مصنوعی جمہوریت اور مصنوعی سیاسی قیادت مسلط کی. کیا اس کا دفاع ممکن ہے؟
٦- آئین پاکستان، سرزمین پاکستان پر کسی بھی قسم کی مسلح تنظیموں کے قیام سے منع کرتا ہے. کیا بھٹو' ضیاء' بے نظیر اور نواز شریف کی طرح مشرف نے بھی مسلح تنظیموں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی نہیں کی؟
٧- کیا ضیاء الحق کی مخالفت اس لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا؟
٨- جب آپ ضیاءالحق پر جائز و ناجائز تنقید کرتے ہیں اور سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور پرویز مشرف کا نام بھی نہیں لیتے تو کیا اس سے آپ کی انصاف پسندی ظاہر ہوتی ہے یا تعصب؟
٩- اگر صرف ضیاءالحق پر تنقید اور حملے کرنے کے بجائے پورے سسٹم کی خرابیوں پر تنقید کی جائے اور اس کی اصلاح کے لیے اپنی تجاویز دی جائیں تو زیادہ بہتر نہ ہوگا؟
١٠- اگر آپ صرف ضیاءالحق کی مخالفت اس لیے کریں کہ وہ اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا اور باقی چار آمروں کو بھول جائیں تو کیا پاکستان کے اسلام پسند اسی اصول کے تحت ضیاءالحق کا دفاع کر سکتے ہیں یا نہیں؟
میں اس وقت صرف انہی سوالات پر اکتفا کرتا ہوں... امید ہے کہ اسے مثبت طور پر لیں گے اور جواب عنایت فرمائیں گے- شکریہ

Comments

Click here to post a comment