ہوم << خالہ کا گھر اور گولڈن پرس - فرح رضوان

خالہ کا گھر اور گولڈن پرس - فرح رضوان

تب میں نے سکول جانا شروع کر دیا تھا یا نہیں ٹھیک سے یاد نہیں، البتہ اس زمانے میں اپنی بہت ہی پیار لٹانے والی اور مجھے چوزے کی طرح اپنے پروں میں رکھنے والی خالہ اور ان کے تمام بچوں کا جو مجھ سے عمر میں پندرہ سے پچیس سال کے لگ بھگ بڑے ہوں گے، تمام وقت اپنی ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھنا بہت واضح طور پر یاد ہے. بہت سال پہلے کی بات ہے کہ میرے بڑے بھائی کو اچانک سے ڈیپتھیریا ہوگیا، اس خطرناک مرض کی وجہ سے امی کو بھی، نجانے کتنے سارے دن بھائی کے ساتھ ہی ہسپتال میں رہنا پڑا. ابوکے روزگار کی مصروفیت کے سبب، سبھی نے یہ فیصلہ کیا کہ ان دنوں میرا خالہ جان کے گھر پر رہنا ہی مناسب ہے. وہاں وہ شان اور عیش تھے میرے کہ جیسے کوئی شہزادی، خالہ جان کا گھر ان کے دل کی سلطنت کی طرح کافی کشادہ تھا، بلا شبہ وہ ملکہ عالیہ تو تھیں ہی لیکن حکومتی انتظامات ان دنوں میرے سپرد کر دیے گئے تھے.
خالہ جان نے ایک بہت ہی خوبصورت سا پرس، جو شاید گولڈن ستاروں والا تھا، مجھے عطا کر دیا، ہر روز صبح ناشتے سے فرصت کے بعد بلاناغہ اس میں ڈھیر سارے چلر وہ مجھے بھر کر دے دیا کرتیں، تاکہ روزمرہ کے تعمیراتی کاموں میں حکومتی اخراجات بر وقت اور بخوبی کیے جاسکیں، اور میں مزے سے پورا دن ذمہ داری کا یہ بار خوشی خوشی اٹھائے رعایا کے درمیان ہی رہتی کہ نجانے ان میں سے کب کس کو ضرورت پڑجائے. ان کی سلطنت میں دھوبی کپڑے لے کر آتا اور اسے اجرت دینی ہوتی تو میری ضرورت پڑ جاتی. مجھے پیسے گننے آتے نہ حساب لینا، ملکہ عالیہ ہی بذات خود بیشتر امور میں میری مددگار ہوتیں، چوکیدار کے پیسے، دودھ والے کے، یہاں تک کہ صبح جب گھر کا سودا لینے کوئی جاتا تو اسے میری خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنا پڑتا کہ کس وجہ سے اسے مالی امداد کی ضرورت پیش آگئی ہے اور کتنی.
مضبوط چٹکی والا پرس مابدولت سے کھل بھی نہ پاتا تھا سودا لینے والا ہی پرس کھول کرواپس پکڑا دیتا، کہ اسے اپنے دست مبارک سے ہدیہ عطا کر دیا جائے، لیکن پھر مابدولت کی گنتی سے ناآشنائی کی بنا پر خود ہی پیسے لے لیا کرتا، کم زیادہ یا سارے مجھے اس کی فکر ہی نہیں تھی کہ پیسے اس طرح ختم بھی ہو سکتے ہیں، کون سی میری خاندانی دولت تھی کہ میں خزانے کا سانپ بن کر اس پر بیٹھ جاتی، اور میں سوالی سے بہت پوچھ تاچھ یوں بھی نہ کرتی کہ مجھے پتہ تھا کہ سلطنت کی ملکہ نے یہ رقم مجھے انہی کاموں پر خرچ کرنے کے لیے ہی تو سونپی ہے. بچا بچا کر ان کو واپس کر دینےکے لیے نہیں، اپنے پیچھے چھوڑ جانے کے لیے نہیں، ساتھ ہی یہ بھی علم تھا کہ مال کے وزن سے بھرے پرس کے بوجھ کو کم کر دینے کے لیے مجھے اسے کہیں بھی اپنی مرضی سے ٹھکانے نہیں لگا دینا ہے اور نہ ہی اپنی ملکیت جان کر اپنے کپڑوں کے بیگ میں سینت سینت کر رکھنا ہے، نہ ہی باہر گزرتے ہر ٹھیلے کو روک کر ہر ایک چٹخارے سے لطف اندوز ہونا ہے، مجھے یہ بھی یقین رہتا کہ صبح صبح سب کام شروع ہونے سے پہلے مجھے پھر سے بھرا ہوا پرس، مل جانا ہے. کیسے؟ یہ کبھی سوچا ہی نہیں، کب تک؟ یقینا میرے وہاں قیام تک اور اس سے آگے! وہ میرے کس کام کا تھا بھلا؟
الحمد للہ یہ ہوتا ہے بزرگوں کا فیض، جو ہمارے معاشرے میں اللہ کے فضل سے اب تک قائم ہے کہ کوئی قرآن کا مکمل فہم رکھتا ہو یا نہیں، لیکن اپنے اپنے بچوں میں بلکہ نسلوں میں کسی نہ کسی صورت و مما رزقنھم ینفقون ’’اور جو کچھ دیا ہے ہم نے اُن کو اس میں سے(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔‘‘ کا سبق ابتدا ہی سے پکا کروا دیا جاتا ہے. اور ایک بندۂ مؤمن کو رزق سے متعلق بس کچھ ہی نکات سمجھ لینا بھی کافی ہوجایا کرتے ہیں.
جیسا کہ دوسرا نکتہ یہ کہ رزق سے مراد فقط مال ہی لے لیا جائے تو اگر یہ مال صرف اللہ کی راہ میں درست طریقے سے خرچ کیا جائے تو یہ عمل سخاوت، اور ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں سخی کہلائےگا جبکہ دوسری صورت میں اپنی مرضی، مستی اور ناموری کے شوق، یا پھر جگ ہنسائی کے خوف سے خرچ کرے گا تو یہ عمل سراسر فضول خرچی اور کرنے والا شیطان کا بھائی کہلاۓ گا. اور یہی دوسرا نکتہ دراصل پہلے، اور ذرا سے پوشیدہ، یا محو نکتے کو سامنے لاتا ہے کہ انسان محض اپنی صحت، طاقت اور نسب و حکمت کے بل بوتے پر رزق نہیں حاصل کر لیتا، بلکہ رزق عطا کرنے والی ذات اللہ کی ہے جو مالک الملک ہے، تو جن کاموں کی اہمیت اس کے دربار میں ہے ان ہی پر یہ مال خرچ کیا جائے. اور تیسرا اہم نکتہ یہ کہ عبدالرزاق، الرزاق کی اس تقسیم پر نہ صرف راضی اور عملی طور پر شکرگزار ہو بلکہ اس کی نیت میں بھی اخلاص ضرور ہو، تو وہ خیر و برکت کے خزانے پاتا ہے، اور راضی نہ رہنے والا حسد کی آگ میں اپنا آپ اپنی نیکیاں اپنی خوشیاں سبھی کچھ جلا کر خاک ہو جاتا ہے.
اصل میں تو رزق کا مطلب، رب کی طرف سے انسان کو بخشی ہوئی ہر ہر طرح کی نعمت، صلاحیت، تعلق، وقت، موقع سبھی کچھ ہے، جس کا درست یا غلط استعمال ہی انسان کا امتحان ہے. اور کیونکہ یہ رزق بانٹنے والی صفت قران میں متقین کی بیان کی گئی ہے تو متقی تو صرف بندۂ مؤمن ہی ہو سکتا ہے، اور مومن کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بھولا بھالا ہوتا ہے، معصوم بچے کی طرح. تبھی تو ہر بندۂ مومن مالک الملک کا تھمایا ہوا رزق سے بھرا اپنا اپنا گولڈن پرس پکڑے پل پل اپنی رعیت کی خبرگیری میں رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ نہ جانے کب کس کو کیا ضرورت پڑجائے اور اتنا بھولا پن اسے اس ٹیشن سے نجات دے دیتا ہے کہ اگر آج یہ رزق فلاں فلاں کام میں خرچ کر دیا تو کل اس کے پاس مزید کہاں سے آئے گا؟ کیونکہ اسے دنیا کی نہیں ہوتی آخرت کی فکر ہوتی ہے، ایک پراجیکٹ تکمیل پر ہوتا نہیں کہ دوسرا شروع اور یہ کیا ہے بھلا؟ یہی تو موقع ہوتا ہے نیکی کمانے کا. رب کو راضی کرنے کا. اور موقع کیا ہے؟ یہ بھی تو رزق ہی ہے ماشا اللہ . کس کی طرف سے ؟ وہی جو الرزاق ہے، جس کی سلطنت ہے، جو مالک الملک ہے، رب العالمین ہے. سبحان اللہ

ٹیگز