ہوم << ساتویں صدی کا اسلام اوراکیسویں صدی کا انسان - مدیحی عدن

ساتویں صدی کا اسلام اوراکیسویں صدی کا انسان - مدیحی عدن

مدیحی عدن دورجدید میں جہاں انسان نے ترقی کی وہاں اس کے ذہن نے بھی خود کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا۔ جب انسان پرانے وقتوں کے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہے تو ان سے منسلک ہر چیز اس کو پرانی، دقیانوسی اور فرسودہ ہی لگتی ہے جیسے پرانے خیالات، پرانا فیشن، پرانی تہذیب، پرانے رسم و رواج، ان سب چیزوں میں وہ ایک اور چیز کو بھی پرانا سمجھتا ہے کیونکہ جہاں فیشن، رسم و رواج، زمانہ مزید جدیدیت کی طرف جاتا ہے وہاں وہ ایک چیز وہیں کی وہیں رہتی معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے اس کا مذہب، وہ مذہب سے منسلک ہر قسم کی بات کو پرانی تصور کرتا ہے. جو چیزیں پیدائش کے وقت بھی ویسی ہی تھیں اور آج بھی ویسی ہی ہیں حالانکہ زمانہ بدلا ، سوچ بدلی، فیشن بدلا
لیکن مذہب نہیں؟ یہ سوال سامنے آتا ہے تو انسان مذہب کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے اوراس میں گنجائش پیدا کرتا ہے۔
مذہب کو جدیدیت کی طرف لانے میں تین طرح کے گروہ سامنے آتے ہیں۔
ایک طبقہ تو وہ ہے جو کہتا ہے کہ سب کچھ پرانا ہی چلتا رہے کچھ بھی بدلا نہ جائے، کوئی تبدیلی قبول نہ کی جائے، ساتویں صدی کا جو اسلام تھا، بس اسے ہی مانا جائے۔ اگر اس دور کے لوگ جانوروں کی سواری پر سفر کرتے تھے تو آج بھی جانور ہی سواری کے لیے استعمال کیے جائیں۔ گاڑی، جہاز، موٹرسائیکل پر سفر کرنا حرام ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ ہرتبدیلی کو مذہب میں قبول کرلینا چاہیے جو کہ دور کی ضرورت ہے، چاہے وہ تبدیلی اچھی ہو یا بری۔ یہ طبقہ معاشرتی اقتدار اور سوچ کو بدل دیتا ہے، صرف اور صرف اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے، جیسے ہم جنس پرستی۔ خاندان ایک مرد اور عورت سے وجود میں آتا ہے، لیکن اس طبقے کے مطابق خاندان کے لیے دو افراد کا ہونا ضروری ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ دونوں مرد ہیں یا دونوں عورتیں، یا پھر مرد یا اس کا فالتو جانور۔
ایک طبقہ وہ ہے جو کچھ جدید تبدیلیاں لے لیتا ہے اور کچھ نہیں، لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا ہے یا رد؟
اب سوال یہ ہے کہ
’’کیا ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی کے انسان کے ساتھ چل سکتا ہے ؟‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک اعتدال پسند دین ہے جو کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خود میں اتنی لچک رکھتا ہے کہ جدیدیت کوخود میں گھلا ملا لے۔ انسان کی فطرت یہ پسند کرتی ہے کہ زمانے کے ساتھ وہ بھی جدت کی طرف مائل رہے ، کوئی بھی پرانی سوچ کا ہونا، پرانے طرز کا لباس اپنے اوپر اوڑھنا پسند نہیں کرتا. اسلام اس انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے. اسلام کو جب لوگ پرانے خیالات کا مذہب کہتے ہیں تو وہ اس کی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا لیتے ہیں، جیسے مرد اور عورت ہاتھ نہیں ملا سکتے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اسلام کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں مگر اس پر ایک انتہائی لچکدار عمارت کھڑی ہے جیسا کہ جب تمباکو نوشی شروع ہوئی تو اس کے بارے میں فکرپیدا ہوئی کہ آیا استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ تو اسلامی فقہ میں ایسے اصول دیکھے گئے جو اس سے مناسبت رکھتے ہوں جیسے سگریٹ کے استعمال سے ایک خاص قسم کی بو پیدا ہوتی ہے تو اسلام میں ممانعت ہے کہ جس شخص نے لہسن یا پیاز کھایا ہو وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرے ، کیونکہ اس سے بھی بدبو پیدا ہوتی ہے، اور ساتھ نماز ادا کرنے والے شخص کو اچھا نہیں لگتا، بدبو کی وجہ سے سگرٹ پینے کو ناپسندیدہ قراردیا گیا، حرام نہیں کیا۔ پھر1979ء میں جب یہ ریسرچ سامنے آئی کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر (lungs cancer) ہوتا ہےتو پھر اسلامی فقہ میں ایسے قانون دیکھے گئے جو انسان کو خود کو نقصان پہنچانےسے تعلق رکھتے ہوں جیسے خودکشی وغیرہ، پھر سگرٹ نوشی کو بعض علمائے کرام کی طرف سے حرام کردیا گیا یعنی جیسے کوئی جدید بات پیدا ہوئی تو فوراً اس لحاظ سے ایک رائے پیدا ہوئی کہ آیا یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ کوئی جدت آئی تو بتدریج اسے لیا گیا اور بتدریج ہی احکام وضع کیے گئے.
اسلام جدت پسند ہونے کے لیے اقدار کو نہیں بدلتا لیکن جو جدت پسند ہیں وہ اقدار بدلنے کا کہتے ہیں اور اگر وہ نہ بدلیں تو ان کی سوچ میں مذہب دقیانوس اور پرانے خیالات کا ہے، جیسے ہم جنس پرستوں کے حق میں قوانین پاس کروائے گئے کیوں کہ جدیدیت یہی ہے، حالانکہ اس سے معاشرے نے اپنے اندر بگاڑ پیدا کرلیا، خود کو جدت پسند ہونے کا خطاب دلوانے کے لیے۔ ہر چیز اختیار کر لینا جدت پسندی نہیں بلکہ لینے والی چیز میں تمام عناصر کو مدنظر رکھ کر اسے لینا یا چھوڑنا ضروری ہے۔ اس لیے ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی میں بھی پرانا یا بوسیدہ نہیں ہے۔ یہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی جانتا ہے اور پستی سے بچانا بھی، دقیانوس تو وہ ہیں جو صرف ایک رخ کو اختیار کیے جا رہے ہیں، اس کے مستقبل میں ہونے والے اثرات کو جانے بغیر.

Comments

Click here to post a comment