امت محمدیہ علی صاحبہاالصلوۃ والسلام کےلیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو شریعت اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوات والسلام کی حیات کو ملت قرار دیا گیا ہے، گویا ہماری شریعت محمدی اور ملت ابراہیمی ہے۔ ہمیں دونوں کی اتباع اور پیروی کا حکم اور کسی ایک سے اعراض کو موجب ہلاکت و خسران قرار دیا گیا ہے۔
شریعت و ملت کے درمیان فرق کیا ہے؟
شریعت دین کے جملہ احکام و جزئیات کا مجموعہ ہے جبکہ ملت ان احکام و جزئیات کی بنیاد و قواعد کا نام ہے گویا شرعی احکام کی بجا آوری میں ملت کا تصور مطلوب و مامور ہے بقول اقبال:
ملت سے اپنا رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
مثلا اپنے جان و مال کو دین کے لیے قربان کرنا شرعی حکم ہے اور بلا چوں وچرا اس کے لیے سرتسلیم خم کرنا ملت ابراہیمی کاتقاضا ہے۔ ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم کیوں دیاگیا؟ کیونکہ یہ عالمگیر امت ہے جس کے ذریعہ اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا کے چپے چپے تک پہنچایا جانا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے بین الاقوامی و بین البراعظمی پیغمبر ہیں جنہوں نے مختلف ممالک و اقوام تک اس عالمگیر پیغام کو پہنچایا۔ تو عالمگیر امت کو ایک عالمی طریقہ و منہج کی ضرورت تھی، اس بنا پر ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا گیا۔
ملت ابراہیمی کے اہم عناصر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی امتحان وآزمائش سے عبارت ہے، اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں چند چیزیں نہایت اہم اور ملت ابراہیمی کی بنیاد ہیں
1. ہمہ گیر و ہمہ جہت دعوت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر کفر و باطل کو دعوت توحید اور پیغام حق سنایا، چنانچہ دعوت کا آغاز اپنےگھر سے کیا، سب سے پہلے اپنے والد کو دعوت توحید دی جوکہ نہ صرف بت پرست تھا بلکہ بت تراش اور بت فروش بھی تھا، چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کا رشتہ نہایت اہم اور غیرمعمولی تھا اس لیے آپ نے نہایت ادب کے پیرائے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا؛ اے اباجان! آپ ان بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو آپ کو کچھ نفع و نقصان نہیں دے سکتے۔ اور مخاطب کم فہم و نادان تھا اس لیے وعظ و نصیحت کا طریقہ اختیار فرمایا جس کا اثر براہ راست دل پہ ہوتا ہے، مگر اس نے بات سننے سے انکار کرتے ہوئے سنگسار کرنے کی دھمکی دی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا جواب سلام اور بخشش کی دعا کے ساتھ دیا۔ پھر اپنی قوم جو کہ بت پرستی میں مبتلا تھی اسے توحید کی دعوت دیتے رہے مگر اس نے بھی نہ مانا۔ اسی دوران ایک قوم جو کچھ سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود کج فہم تھی اور ستاروں و سیاروں کی پرستش میں مبتلا تھی، اسے عقلی و آفاقی دلائل کے ساتھ وحدانیت باری تعالی کی دعوت دی مگر وہ بھی راہ ہدایت پہ آنے کے لیے آمادہ نہ ہوئی۔
بادشاہ وقت نمرود جو کہ پوری دنیا پہ حکمرانی کر رہاتھا، اس وقت کی سپرپاور گردانا جاتا تھا حتی کہ خدائی کا دعویدار بنا بیٹھا تھا، اس کے پاس بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید باری تعالی کا پیغام لے کر پہنچے اور اسے حقیقی رب کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، وہ نادان سمجھ نہ سکا اور کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، اور اپنے اس بےہودہ دعوی پر احمقانہ دلیل دیتے ہوئے سزائے موت کے حقدار شخص کو رہا کردیا اور بےگناہ کو قتل کروا دیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علم ہوا کہ یہ نادان اس حقیقت کو سمجھ نہ پائے گا تو بالکل واضح دکھائی جانے والی دلیل پیش کی کہ میرا رب مشرق سے سورج کو طلوع کرکے مغرب میں غروب کرتا ہے تو اس کے برعکس کرکے دکھا، تو وہ ہکابکا رہ گیا مگر قبول حق نہیں کیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو دعوت حق دیتے ہوئے مکالمہ کا انداز اپنایا اور اسے لاجواب و عاجز کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم کی بت پرستی و گمراہی سے سخت نالاں تھے اور ہمہ وقت اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح قوم راہ ہدایت کو اختیار کرلے چنانچہ ایک موقع پر جب قوم وہاں نہیں تھی تو آپ نے ان کے بت خانہ میں داخل ہو کر سوائے بڑے بت کے سب بتوں کو توڑ کے رکھ دیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اقدام محض انتقامی جذبہ سے نہ تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پہلے بڑے بت کو توڑتے، آپ کا اس سے مقصود مجادلہ حسنہ کے ساتھ حق کو سمجھانا اور واضح کرنا تھا، ضمیر کی عدالت میں لا کے جھنجھوڑنا اور اتمام حجت کرنا تھا چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ کیا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ بڑے بت سے پوچھ لو، اس وقت ان کے ضمیر نے ملامت کی اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو کہنے لگے کہ تم ہی ظالم ہو۔ مگر جب عقل پہ پردہ پڑا ہو تو انسان ضمیر کے فیصلہ کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے تو اسی کیفیت میں کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے یہ بولتے نہیں ہیں تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر۔ قوم پر حق واضح ہوچکا تھا مگر وہ قبول حق کے بجائے مخالفت پر اتر آئے، ہٹانے مٹانے اور جلانے کے منصوبے بنانے لگے. اس جرم کی پاداش میں آپ کو آگ میں ڈالا گیا مگر آپ نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا بقول علامہ اقبال
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاۓ لب بام ابھی
اللہ تعالی نے آگ میں آپ کی حفاظت فرمائی اور آپ نے اپنے ملک و قوم کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔
2. عالمگیر دعوت۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم و خاندان کو ہمہ گیر و ہمہ جہت دعوت دینے کے بعد عالمگیر دعوت کا آغاز کیا چنانچہ اس مقصد کے لیے اپنے اہل خانہ سمیت عراق سے شام کی طرف ہجرت کی، پھر جب بیٹے کی ولادت ہوئی تو حکم ہوا کہ اپنے اہل خانہ سمیت یہاں سے حجازمقدس کی طرف جائیں، جب وہاں پہنچے تو حکم ملا کہ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ و حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو اس ویرانہ میں چھوڑ کر واپس شام چلے جائیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیغام حق و توحید کو ملک و قوم کی حد بندیوں سے نکال اقوام و اطراف عالم تک پہنچایا چنانچہ آپ عراق میں پیدا ہوئے، شام کی طرف ہجرت کی، حجاز میں گئے، بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ لوگوں میں حج کی آواز لگائیے. اب قیامت تک آنے والے لوگ آپ کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے حج کے لیے آئیں گے تو اس آواز کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عالمگیر دعوت تا قیامت ہوگئی۔
3. تسلیم ورضا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات اور ملت ابراہیمی کا اہم عنصر و خصوصیت سراپا اسلام اور اطاعت و فرمانبرداری ہے. خود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں ایک فرمانبردار امت پیدا فرما۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فرمانبردار ہوجا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اللہ کا فرمانبردار ہوگیا جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ حضرت ابراہیم کی تمام زندگی اطاعت و فرمانبرداری اور مجاہدہ و قربانی سے عبارت ہے. ملک وقوم اور خاندان کو الوداع کہا، زوجہ و بچہ کو ویرانے میں چھوڑ دیا اور امتثال امر میں بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے. جب بیٹے تھے تو توحید الہی کے لیے باپ کو چھوڑنے کی قربانی دی اور جب باپ بنے تو حکم الہی کی تعمیل میں بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا تو وہ ہر آزمائش میں پورے اترے اور کامل اطاعت و فرمانبرداری کی۔ الحاصل ملت ابراہیمی کے اہم عناصر ہمہ گیر و ہمہ جہت و عالمگیر دعوت اور کامل اطاعت و فرمانبرداری ہے۔
ملت ابراہیمی کے اتباع پہ خدائی وعدہ:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام آزمائشوں پر پورے اترے تو اللہ تعالی نے عالمگیر امامت و قیادت کی خوشخبری دی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے التجا کی کہ میری اولاد کو بھی یہ انعام عطا فرمائیے تو اللہ تعالی نے فرمایا میرا وعدہ ظالموں کےلیے نہیں ہے یعنی عالمگیر قیادت کا وعدہ صرف اسی کےلیے ہے جو ملت ابراہیمی کی اتباع کرے گا اور جو اس سے روگردانی کرے اس کے لیے یہ وعدہ نہیں۔
ملت ابراہیمی کے تقاضے اور ہماری ذمہ داری:
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں تو عالمگیر ہےکہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور دیگر مذاہب کے لوگ بتدریج اپنی رضا و خوشی سے اس میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ دیگر مذاہب اپنے وجود و بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں. یہ محض دعوی نہیں بلکہ مشاہدہ ہے اور کوئی ذی ہوش اس کا انکار نہیں کرسکتا، البتہ امت کو عالمگیر قیادت حاصل نہیں، یہی امت مسلمہ کا گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس کے لیے ہمیں ملت ابراہیمی کے تقاضوں پر عمل کرنا ہوگا، دعوت کا ہر منہج و طریق اپناتے ہوئے ہر کفر و باطل تک پیغام حق پہنچانا اور اسے دین اسلام سے روشناس کرانا ہماری ذمہ داری ہے. ملک و قوم کی حدبندیوں اور دیگر تعصبات سے بالاتر ہوکر دین کی دعوت اور اس کا دفاع کرنا ہوگا. بقول علامہ اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
شرعی احکام کی تعمیل میں سرتسلیم خم کرنا ہوگا جو کہ ملت ابراہیمی کا خاصہ ہے، اپنے آپ کو جہد و قربانی کا خوگر بنانا ہوگا کہ ملت ابراہیمی کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے اور قیادت کی صلاحیت و اہلیت بھی انہی صفات سے ہوتی ہے۔
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
ملت ابراہیمی درحقیقت اسلام کے آفاقی پیغام کو پوری دنیا میں پہنچانے کا نام ہے اور ملت ابراہیمی کی اتباع پر عالمگیر امامت و قیادت کا خدائی وعدہ ہے۔
عقل ہے تری سپر، عشق ہے شمشیر تیری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تیری
تبصرہ لکھیے