ہوم << مذہب اور سائنس - عبد اللہ کیلانی

مذہب اور سائنس - عبد اللہ کیلانی

مذہب اور سائنس کا تعلق بیان کرنا باقاعدہ ایک علیحدہ علم ہے. ہر علم کی طرح اس علم کو بھی سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ دیکھنا ہوگی یعنی مذہب اور سائنس کا ماضی میں کیا تعلق رہا ہے یا کن کن نامور ماہرین علم نے اس علم پر کیا کیا کام کیا ہے.
یہ تعلق سب سے پہلے شاید علمائے مذہب کی غلامی سے پیدا ہو، بخت نصر نے بنی اسرائیل کو غلام کیا، اور انہیں عراق لے گیا. عراق ایک بڑی تہذیب تھا. ان علمائے مذہب نے اس تہذیب سے متاثر ہو کر اپنے مذہب کے ’’موافق‘‘ تعبیر کی، مثلا زمین ایک بڑی کشتی ہے جو پانی کے سمندر میں تیرتی رہتی ہے، جب پانی میں طغیانی آتی ہے تو زلزلے اور سیلاب آتے ہیں. یہی بنی اسرائیل کے عقائد بن گئے جو پہلے علمائے بابل کے تصورات تھے. ان تصورات کا اثر موجودہ بائبل میں اب بھی نظر آتا ہے. زمین کے بارے میں، آسمان کے بارے میں، بہت سی باتیں بابل کی تہذیب سے بنی اسرائیل نے لیں. سائنس سمجھ کے لیں، عقل سمجھ کے لیں یا ’بڑی تہذیب کا فیشن‘ قبول کیا. عیسائیت کے ساتھ یونان کی تہذیب نے یہی معاملہ کیا. ’علماۓ یونان‘ کے بہت سے عقائد و نظریات آج عیسائیت کی بنیاد ہیں. خاص طور پر ابن اللہ اور تثلیث کے عقائد یونان کی’اعلی تہذیب‘ سے متاثر ہو کر بطور فیشن عیسائیت کا حصہ بنے. یونان کے لوگوں کے بہت سے عقائد کی معمولی تبدیلی کر کے ’مذہب کی شان‘ بڑھانے کے لیے عیسائیت کا حصہ بنا دیے گئے. یہاں تک تو مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نظر نہیں آتا.
اب جو سائنس ہے یا جو معیار عقل ہے یا جو معیار فیشن ہے، یہ سب تو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں. اس کے برعکس مذہب کا مزاج غیر متبدل ہوتا ہے. مذہب صرف تب ہی لچکدار ہوتا ہے جب وہ غلامی سے دوچار ہو. جب عیسائیت کو حکومت ملی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنسی نظریات میں تبدیلی آنے لگی. اب قدیم یونانی سائنسی نظریات غیرمعتبر ہونا شروع ہوگئے. اب زمین کائنات کا مرکزی حصہ نہ رہی. لیکن یہ سب باتیں تو عیسائیت غلامی کے دور میں قبول کر چکی تھی. شائد یہی وہ دور ہے جب سب سے پہلے مذہب اور سائنس کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا، سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، یہاں سے یہ تصورات ابھرے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے دشمن ہیں.
قرون وسطی میں اسلامی تہذیب کو غلبہ حاصل ہوا، پھر یونانی اور ہندی تصورات اس میں شامل ہوگئے، اور بہت سے بیرونی نظریات کو عقل کے نام پر قبول کر لیا گیا. شاید یہی وہ دور تھا جب ’عقل‘ اور ’نقل‘ میں کشمکش شروع ہوگئی حالانکہ قرآن نے عقل کو ان معنوں میں کہیں بھی استعمال نہیں کیا. اس کشمکش نے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو یہودیت کے ساتھ بابلی، اور عیسائیت کے ساتھ یونانی تہذیب نے کیا. اس کے اثرات آج بھی بعض اوقات مشاہدے میں آتے رہتے ہیں.
اس کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں.
1. زمین کو ساکن اور کائنات کا محور سمجھنا حالانکہ کہ یہ چیز قرآن میں کہیں نہیں لکھی ہوئی. یہ چیز یونانی تہذیب سے آئی ہے. شیخ عبد العزیز بن باز کا مشہور فتوی کہ جو کہے زمین متحرک ہے اس نے کفر کیا. شیخ صاحب نے قرآن کی آیت کہ ’ہم نے زمین میں میخیں گاڑ دی‘ کی قرون وسطی والی تعبیر کی.
2. آدم علیہ السلام کو دس ہزار سال سے زیادہ قدیم نہ ماننا. یہ چیز اہل کتاب سے مسلمانوں میں آئی ہے. اور اہل کتاب نے کہاں سے لی، شاید یونانی تہذیب سے. قرآن اور احادیث میں کہیں بھی ایسا کچھ نہیں ہے.
دوسری طرف جو ظلم و ستم سیکولر سرمایہ دارانہ نظام یا اشتراکی سماج کی طرف سے سائنس کے نام پر مذہب اور اہل مذہب پر ڈھائے گئے، اس کی فہرست اس سے بھی زیادہ طویل ہے.
اس سب کے بعد ہم نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں. سائنسدانوں کی مندرجہ ذیل اقسام ہو سکتی ہیں.
1. مذہب پر عمل کرنے والے نیک سائنسدان
2. مذہب کے خلاف چلنے والے
3. مذہب اور سائنس کو علیحدہ علیحدہ رکھنے والے
اور اسی طرح علمائے کرام کی بھی تین اقسام ہو سکتی ہیں.
اس میں ایک چیز جو ہمیں دیکھنی ہے، وہ یہ کہ مذہب کی جس چیز کو ہم سائنس کے خلاف سمجھ رہے ہیں، وہ کس حد تک مذہبی ہے؟ اس کی اصل کیا ہے؟ اسى طرح سائنس کی جس چیز کو ہم سائنس سمجھ کے قبول کر رہے ہیں؟ اس کی اصل کیا ہے؟ اس بنیادی سوال پر غور کرنے سے ہم درست نتیجہ تک پہنچ سکیں گے.

Comments

Click here to post a comment

  • بہت گہرائی میں جا کر تبصرہ کیا ہے. میری ناقص رائے میں یہ جو جدید سیکولر اور مذہب کی جنگ جاری ہے اس کی بنیاد بھی یہی ہے. اب جیسے چاند نظر آنے نہ آنے پر کئی دن تک تو تو میں میں ہوتی رہتی ہے. آخری پیراگراف میں جس طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ سب سے اہم ہے. لیکن یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کو بیک وقت مذہب اور سائنس پر عبور حاصل ہو.