ہوم << جانور بڑے مہنگے ہیں، حقیقت کیا ہے؟ِ مبشر اکرام

جانور بڑے مہنگے ہیں، حقیقت کیا ہے؟ِ مبشر اکرام

عیدالاضحی کی آمد آمد ہے۔ صاحبِ نصاب مسلمان ایک بار پھر جانوروں کی تلاش میں نکلیں گے۔ جانوروں کی خریدوفروخت کے دوران آپ کو ایک جملہ خریداروں کی جانب سے مسلسل سننے کو ملے گا۔ ’’قیمتوں کو آگ لگی پڑی ہے (جانور بڑے مہنگے ہیں)‘‘۔ کہنے کو یہ جملہ بالکل درست لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ میرے والد صاحب کو جانوار پالنے کا شوق ہے اور پچھلے دس سال سے وہ اس شعبے سے منسلک ہیں۔ جس کی بنا پر میں آپ کے سامنے بڑے جانور کا ایک آسان سا حساب کتاب پیش کرتا ہوں۔ پھر آپ خود اندازی کر لیں کہ جانور مہنگا ہے یا سستا۔
قربانی کا ایک بیل جس کی عمر پوری ہو اور لوگ قربانی کے لیے پسند کریں تقریباََ تین سال کا ہوتا ہے۔ ایک جانور پر روز کا آنے والا خرچہ یعنی کھانا پینا اور لیبر وغیرہ کا کم از کم کم از کم خرچہ بھی لگائیں تو دو سو روپے بنتا ہے۔ یہ میں نے ان علاقوں کے حساب سے بتایا ہے جہاں گھاس وافر موجود ہو وگرنہ کھونٹے پر بندھا جانور اس سے کہیں زیادہ کھا جاتا ہے۔ اب دوسو کو تین سو پینسٹھ سے ضرب دے لیں اور پھر اس رقم کو تین (یعنی تین سال) سے ضرب دے لیں۔ یہ رقم دو لاکھ انیس ہزار بنتی ہے۔ اس رقم میں وہ خرچہ شامل نہیں جو اس کے رہنے کے کمرے اور جگہ پر آیا ہے۔ وہ خرچہ بھی شامل نہیں جو بیمار ہونے کی صورت میں اس کی دوائی دارو پر آیا ہے۔ وہ خرچہ بھی شامل نہیں جو اس کا مالک اسے ٹرک پر لاد کر کشمیر یا دور دراز کے کسی گائوں سے لایا ہے۔ وہ خرچہ بھی شامل نہیں کہ جتنے دن مالک منڈی میں رہے گا اتنے دن کھانے پینے پر آئے گا۔ اگر بیل گھر کا تھا تو اس کی ماں کو کراس کروانے سے لے کر اس کی pregnancy کے دورانیے میں جو خرچہ آیا وہ بھی شامل نہیں کیونکہ گائے ان دنوں میں دودھ نہیں دے رہی تھی۔ اگر بچھڑا خرید کر پالا تھا تو بندرہ بیس ہزار کا وہ خرچہ بھی ہوا ہوگا۔ ان سب باتوں کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جانور پالنے والے لوگ نہ عید کی چھٹی کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی عزیز ترین کی وفات پر گھر سے غیر حاضر ہو سکتے ہیں کیونکہ جانوروں کو بھوکا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ سب کشت اٹھانے کے بعد ان کے پاس اڑھائی یا تین سال بعد ایک موقع آتا ہے جب انہیں اتنی ساری محنت کے بعد کچھ کمانے کا موقع ملتا ہے۔ شہری لڑکے جو عید پر غریب کسان کے گرد منڈی میں گھیرا ڈال کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جانور کی شکل سے لے کر صفائی تک میں عیب نکال قیمت گراتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو فنکار سمجتے ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بیل دودھ نہیں دیتا۔ لہذا مت سمجھیں کہ آپ کا دیے ہوئے ڈیڑھ لاکھ کے علاوہ بھی اس نے کوئی رقم کمائی ہوئی ہوگی۔ آپ کے پاس بیس لاکھ کی گاڑی ہے۔ اسی ہزار کا موبائل ہے۔ کروڑ روپے کا گھر ہے۔ مہربانی کرکے کسانوں کے ساتھ پانچ ہزار کے پیچھے ان کے جانوروں کا مذاق اڑا کر قیمت نہ گرائیں۔ کیونکہ اگر آپ نے خود ایک بار جانور میں نقص نکال دیا تو سوچیں کہ جو چیز آپ کو پسند نہیں تو خدا کو کیسے پسند ہوگی؟ اور حیرت کی بات یہ کہ یہی فنکار جب کسان کی مجبوری کا فائد اٹھا کر جانور سستے میں خریدتے ہیں تو پیسے ادا کرتے ہی اسی جانور کی تعریفیں شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے بڑا اچھا سودا کیا ہے۔ یہ کیا منافقت ہوئی بھلا؟
دوسرا یہ کہ کسان اس کو تین سال اپنی اولاد کی طرح پال کر لایا ہے مگر کاروبار میں جذبات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لہذا یہ بات رہنے دیں۔ اس نے یہ جانور بیچ کر اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہوگی یا اپنی ٹپکتی چھت کی مرمت کرانی ہوگی۔ آپ اس بار عید پر جانور خریدنے نکلیں تو یہ سب باتیں ضرور ذہن میں رکھیں کہ آپ اس طبقے سے ہیں جو جانور خریدنے نکلا ہے نہ کہ ان میں سے جو عید والے شاپر اٹھائے گھر گھر گوشت اکھٹا کرتے پھریں گے۔ آپ کو خدا نے جانور خریدنے کی ہمت دی ہے تو ذرا سا دل کھول کر اس کی قیمت لگائیں۔ خدا کی راہ میں لگایا پیسہ اگلے سال تک واپس آجائے گا۔ دوسرا یہ کہ گوشت کے منوں کے حساب سے کبھی بھی قیمت نہ لگائیں کیونکہ آپ قصائی نہیں کہ آپ نے گوشت بیچنا ہے بلکہ جانور کی خوبصورتی کو بھی مدِ نظر رکھیں کیونکہ اگر وہ نظر کو جچتا ہوا تو اللہ پاک آپ کی قربانی سے زیادہ راضی ہوں گے۔
یہ سب باتیں جانور کی خرید سے متعلق ہیں اگلی قسط میں کچھ باتیں جانور کو کچھ دن رکھنے اور پھر قربانی کے متعلق ہوں گی۔

Comments

Click here to post a comment