ہوم << روشن چہرہ - عامرہزاروی

روشن چہرہ - عامرہزاروی

عامر ہزاروی شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے، ہم تین دوست اکھٹے چہل قدمی کر رہے تھے کہ موبائل فون نے بجنا شروع کر دیا، اسکرین پہ نگاہ ڈالی تو ایک دوست عبدالوحید کا نام چل رہا تھا، سلام دعا کے بعد حال احوال پوچھا تو اس نے کہا کہ ایک غریب مزدور پاس بیٹھا ہے، اس کے بچے کو کوئی بیماری ہے، ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا ہے اور آپریشن اسلام آباد میں ہوگا، ایبٹ آباد والے کہتے ہیں کہ یہاں علاج ممکن نہیں، آپ آئیں اور اسکے بارے میں لکھیں تاکہ کوئی درد دل رکھنے والا اس بچے کا علاج کروا دے، غریب بچوں کا علاج کروائیں یا روٹی کمائیں ؟
میں اور برادرم وقاص خان بچے کو دیکھنے چل پڑے، گھر جا کے اس کے فوٹو لیے اور دوسرے دن لکھ ڈالا کہ فلاں نام کا بچہ بیمار ہے، یہ اس کے چچا کا نمبر ہے، آپ رابطہ کرکے اس کے علاج کے لیے اقدام اٹھائیں جس سے جو ہو سکتا ہے انسانی جان بچانے کے لیے ہاتھ پائوں ماریں۔ بندہ جب پائوں مارتا ہے تو چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ تحریر لکھنے کے فوری بعد محترم سبوخ سید صاحب سے رابطہ کیا، انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا، انہوں نے بھی پوسٹ لکھی اور بات آگے بڑھا دی، سبوخ بھائی کی تحریر کے بعد میڈیا حرکت میں آیا اور اویس نامی چار سالہ بچے کی بریکنگ نیوز چلا دی. ہسپتال والے دوڑے دوڑے بچے کو لینے پہنچ آئے، خوشی سے نہ سہی مجبورا ہی سہی لیکن آگئے اور کچھ دوست امداد کے لیے بھی آگے بڑھے، حسب توفیق بعض گمنام دوستوں نے اپناحصہ ڈالا، سب اپنا اپنا کام کر کے کاروبارزندگی میں مصروف ہوگئے. ہم بھی مطمئن کہ ہم نے فرض پورا کر دیا، اچانک خیال سوجھا کہ اویس کے چچا سے معلوم کرلوں کہ رقم کافی ہے یانہیں؟ جب اس سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ رقم اویس کے علاج کے لیے ناکافی ہے، ہم نے کہا آپ علاج شروع کروائیں خدا بہتر کرے گا، وقتافوقتا اویس کے چچا سے بات کرتا تو وہ خرچ زیادہ بتاتا لیکن دل مطمئن تھا کہ کوئی آگے بڑھے گا اور بچے کو نئی زندگی کی امید دلائے گا۔ مایوس والدین کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہوں گے، بچہ تقدیر کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا، ایک بچے کو بچانے کی پوری کوشش ہوگی، پاکستانی قوم بری سہی لیکن اتنی بری بھی نہیں کہ یہ بچوں کو تڑپتا چھوڑ دے ۔
شام میں سبوخ بھائی نے ایک بار پھر کال کی اور بتایا کہ کراچی سے ایک ڈاکٹر صاحب نے فون کیا ہے کہ اگر اویس کا علاج اسلام آباد میں ناممکن ہے تو اسے کراچی بھیج دیں، ہم فری علاج کریں گے، میں نے اویس کے چچا سے بات کی تو اس نے بتایا کہ کراچی سے کوئی عورت آئی ہے، اس نے علاج کی مکمل ذمہ داری اٹھا لی ہے، اس نے اپنے دو بندے بھی ہمارے ساتھ چھوڑ دیے ہیں، وہ سارا کام خود کر رہے ہیں، وہ ہمیں پمز ہسپتال سے الشفاء لے گئے ہیں، وہاں کوئی تین لاکھ چالیس ہزار روپے کا خرچ ڈاکٹروں نے بتایا ہے لیکن ہم مطمئن ہیں. میں نے اورنگ زیب سے کہا جو بندے آپ کے ساتھ ہیں ان سے میری بات کروائیں تاکہ مجھے معلوم ہو کہ یہ کون ہیں، میں نے بات کی، نام پتہ پوچھا لیکن انھوں نے بتایا نہیں کہ وہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ صرف اتنا بتا دیں کہ علاج کون کروا رہا ہے؟ کوئی ادارہ ہے یا فرد ؟ بات کرنے والے بندے نے بڑے اصرار کے بعد بتایا کہ کمپنی ٹاپ سٹی ون اور ہائوسنگ سوسائٹی کشمیر ہائی وے والے کنور معیزخان یہ علاج کروا رہے ہیں۔ بس اتنی سی معلومات دیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ صاحب کون ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ میں نے بات بھی نہیں کی لیکن میرے دل میں ان کا احترام ہے، عزت ہے، خدا نے انہیں دولت دی ہے تو یہ پیسہ فضول کاموں میں لگانے کے بجائے نیک کاموں میں لگا رہے ہیں، یہ انسانیت کے ساتھ کھیلنے کے بجائے انسانیت بچا رہے ہیں. دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ ان کے دو بندے مستقل اویس کے ساتھ ہسپتال میں موجود ہیں، اویس کا آپریشن تو ہوچکا اب اسے کینسر کی شکایت بھی ہے، یہ لوگ اسے سی ایم ایچ لے آئے ہیں، یہ ہر آن ڈیوٹی پر موجود ہیں، انہوں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، کتنی بڑی بات ہے کہ علاج بھی کروایا جا رہا ہے اور دو بندے بھی ساتھ ہیں.
میری قوم اور میرے ملک کا جو لوگ برا چہرہ دکھاتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ میری قوم اور میرے ملک کا یہ روشن چہرہ بھی دکھائیں. یہ بتائیں کہ بچے مارنے والے فرعون چند ہی ہیں جبکہ بچے بچانے والے لاکھوں میں ہیں۔ بتائیے دنیا کو کہ یہاں ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں جو مائوں کے چہروں پہ ہنسی لانے کے لیے ہزاروں جتن کرتے ہیں۔ چند روز پہلے جب اویس کو مسکراتا دیکھا تو دل سے ان لوگوں کے لیے دعا نکلی جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کوشش کی. بس اب یہ دعا کریں کہ خدا اویس کو صحت ہے۔