ہوم << ہم صورت گر کچھ خوابوں کے - اسد علی خان

ہم صورت گر کچھ خوابوں کے - اسد علی خان

اسد علی خان زندگی کی ہماہمی میں کوئی چیز جو رخشِ حیات کو محوِخرام رکھتی ہے، امید ہی تو ہے کہ یہی زندگی کے وجود پر دلیل ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ زندہ ہیں۔ (I think, therefore I am)
تجزیہ کرنا سوچ کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے۔ تجزیے کی روشنی میں فکری خطوط متعین ہوتے ہیں. روزمرہ کے اکثر معمولات ہم حیوانی جبلتوں کی تسکین اور تکمیل میں بھلے کھپا دیتے ہوں مگر فکری آسودگی کی طلب ایسی ہے کہ مسلسل ذہن کو کچوکے مارتی رہتی ہے۔ امیدیں، جاگتی آنکھوں کے سپنے اور کچھ نیندوں کے خمار سے جنجھوڑ نکالنے والے خواب۔
ہم چاہتے ہیں کہ زندگی کی سبک خرامی چند ثانیوں کا توقف لے اور اس وقفے میں اپنا اور آپ کا ذہن جھانکیں۔ کچھ ایسے سوالات ہیں جو لذتِ جواب سے محروم ہیں۔ آپ بھی غور فرمائیے اور دیکھیے کہ کیا آپ کسی ایسے ان دیکھے خواب کی تکمیل میں خود کو گھلائے تو نہیں جا رہے جو سرے سے آپ کا ہے ہی نہیں۔ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہر سپنا اپنا نہیں ہوتا، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کوئی قوم مل کر دیکھتی ہے۔ ایک نسل اس کو سینچتی ہے اور اگلی نسل اس کی تعبیر دیکھتی ہے۔ یہ المیہ الگ کہ تیسری نسل ثمرات سے مستفید ہونے کے باوجود اس رومانویت کو کھو دیتی ہے جو پہلی پیڑی کی رگ و پے کو آمادۂ پیکار رکھتی تھی۔ انفرادی زندگی کی دوڑ میں بھی کچھ منصوبے مشترک ہوتے ہیں۔ سماجی جدوجہد کی چکی میں پسنے والا ایک پورا طبقہ مشترک خوابوں کی تکمیل کی خاطر زندگی لہو رنگ کردیتا ہے۔ وہ سب ایک جیسے خواب سجائے پھرتے ہیں۔
ہمارا سوال مگر الگ ہے.
اس طبقے سے جو علم و شعور کی بلوغت کے بعد زندگی کی ترجیحات طے کرتا ہے، وہ اگر اپنے فکری معیار سے معاشرے کی سطح کو متاثر کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے تشنہ تکمیل خوابوں کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جو دیکھتے ہیں، جگ دیکھتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں تو ایک زمانہ اسی محور میں سوچا کرتا ہے۔ المختصر ذہنی و فکری مصنوعات کا دائرۂ اثر وسیع، دیرپا اور موثر ہوتا ہے۔
سماجی رابطے منظم ہوئے تو بات مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹس تک آ پہنچی۔ (جہاں میرے جیسا بندہ بھی اب پڑھا جاتا ہے۔) اب جہاں بےربط خیالات کو اظہار میسر آگیا وہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اگر معاشرے تک اپنے خیالات منتقل کر سکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم دیکھیں، سوچیں اور پرکھیں کہ یہ انتقال افکار کتنا محفوظ اور بے ضرر ہے۔ اپنی ترجیحات متعین کریں اور تفریح و تعلیم سے لے کر مذہب و سیاست جیسے ہر موضوع پر جو چاہیں لکھ ڈالیں مگر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیسا ماحول تشکیل پا رہا ہے؟ معاشرتی بُنت social fabric پر آپ کیا اثر ڈال رہے ہیں؟
ہر فرد اپنی ذات کا ابلاغ کر رہا ہوتا ہے۔ سو، ہر فرد موثر ہے۔ مسلسل ہونے والے اس ہمہ گیر عمل کو مثبت راہ پر روانہ رکھیئے اور خصوصاً وہ لوگ محتاط رہیں کہ جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک زمانہ ان کی سوچ کا تعاقب کرتا ہے اور ان کے خواب کئی نسلوں کی ترجیحات بنتے ہیں۔!

Comments

Click here to post a comment