ہوم << ایک قصہ عبرت اثر، تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو - سیّد سلیم رضوی

ایک قصہ عبرت اثر، تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو - سیّد سلیم رضوی

ٹھیک پندرہ برس پیشتر جب میاں نوازشریف جنرل پرویزمشرف کے ہاتھوں زیرِعتاب آ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے تھے مگر کسی بیرونی مداخلت سے ان کی ایک مبینہ معاہدے کے تحت سعودی عرب روانگی یا جلاوطنی عمل میں نہیں آئی تھی تو اٹک قلعہ میں قائم احتساب عدالت نے معزول وزیرِاعظم نوازشریف کو ہیلی کاپٹر ریفرنس میں 14 سال قید بامشقت، 2 کروڑ روپے جرمانہ اور 21 سال کے لیے نااہلی کی سزا سنا دی جو بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن پر اِتنی بڑی سزا تھی۔ یہ سزا اِس اعتبار سے بھی منفرد تھی کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے کسی ممتاز سیاست دان کو دی گئی تھی۔ تب میاں نوازشریف کی حالت زار کو شاعر نے اِس طرح اپنے شعر میں باندھا تھا:
انجام اس غریب کا ہوتا نہیں بخیر
یہ عہدۂ جلیلہ جسے کارساز دے
دُشمن کو ایک شخص نے کل دی یہ بد دُعا
یا رب! اِسے وزارتِ عُظمیٰ نواز دے
انہی پہلوئوں کے پیشِ نظر ملک بھر میں جو حلقے ایک مدت سے بدعنوان حکمرانوں کے کڑے احتساب پر زور دیتے آ رہے تھے، ان میں سے بعض نے کھل کر ایک سرکردہ سیاسی شخصیت کی اس سزایابی پر اطمینان کا اظہار کیا تو ان کے چاہنے والوں کو یقینا اس کا دکھ بھی سہنا پڑا۔ اس تاثر کی بنیاد یہ تھی کہ اس سے پہلے مقتدر سیاستدانوں کو چھوٹی سزائیں تو دی جاتی رہی ہیں مگر اتنا کڑا احتساب کسی کا نہیں ہُوا جو اقتدار و اختیار کے مناصب پر فائز ہونے والے افراد کے لیے عبرت آموز ثابت ہو سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن نے طویل مدت سے جس حد تک زور پکڑ رکھا ہے اس نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسی کے نتیجے میں کڑے احتساب کا مطالبہ ہر کسی کا معمول بنا رہا ہے۔ اُس غیر سیاسی حکومت کے دور میں پہلی بار نسبتاً زیادہ بڑی تعداد میں احتساب عدالتوں کا قیام، مقدمات کی امکانی حد تک کم مدت میں سماعت اور سخت تر سزاؤں کا اعلان احتساب کے عمل کو سبق آموز بنانے میں کارآمد ثابت ہوا۔ یہ وہ عبرت آموز مرحلہ تھا کہ بہت سے حلقوں نے اپنے دکھ کے اظہار کے ساتھ یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ کاش پوری قوم اِس سے کوئی سبق سیکھے اور ہمارے عدالتی فیصلے قانون کی بالادستی قائم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔
ہمارے ہاں جس شدت کی سیاسی تقسیم موجود ہے، اس کے باعث متذکرہ فیصلے سے متاثر ہونے والے فریق اور اس کے حامی عناصر نے نہ صرف اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا کہ عدالت اِنصاف نہیں کرے گی اور اس کا فیصلہ انتقام کا مظہر ہوگا۔ اگرچہ قانون و عدل کی عمل داری پر یقین رکھنے والے حلقے عدالتوں کے معاملے میں اس طرح کی عیب جوئی اور بدگمانی کو پسند نہیں کرتے اور کسی فیصلے کے اعلان سے پہلے ہی فیصلہ دینے والی عدالت کو مطعون کرنا عدلیہ کے وقار کے بھی منافی سمجھا جاتا ہے مگر اس عمومی نقطہ نظر کی معقولیت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ ملک میں نہ صرف کسی کے ساتھ اِنصاف ہو بلکہ ضروری یہ بھی ہے کہ کوئی فیصلہ آئین اور قانون کی رو سے وجہ نزاع بھی نہ بنے۔ ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں تب فوجی حکومت نے فوجی عدالتیں قائم نہیں کی تھیں ورنہ ماضی میں قائم ہونے والی مارشل لاء عدالتوں سے قانون و انصاف کے تقاضے بالعموم مجروح ہوتے رہے ہیں۔ اِس کے برعکس مقدمات کی جلد سماعت کے لیے تشکیل پانے والی عدالتوں سے اور ان کے طریق کار کا ڈھانچہ خود معزول حکومت کا قائم کردہ تھا۔
قصہ مختصر اب جبکہ ’قسمت کی دیوی‘ تیسری مرتبہ میاں صاحب کو اقتدار کی راہداریوں میں لے آئی ہے اور انہوں نے تین سال تک حالات کے سرد وگرم کا مشاہدہ بھی فرما لیا ہے، اس بات کا انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے، احتساب اور قصاص کی تحریکیں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں اور ان طوفانوں کی تہہ میں نہ جانے کیا کیا کچھ حشر برپا ہونے کو ہے، ان پرخطر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے میاں نوازشریف کو اپنا ماضی بھولنا نہیں چاہیے کہ اللہ رب العزت ہی ہے جو انسان کے اوپر اچھے برے دنوں کو پھیر پھیر کے لاتا ہے تاکہ وہ خود فراموشی میں گرفتار ہونے کے بجائے خوف خدا کو دل میں بٹھا کر حقیقت پسندی سے فیصلے کرے اور کسی غلط فہمی کے نتیجے میں ٹھوکر کھانے سے بچ جائے۔ زیرنظر سطور میں ہم ان تلخ ایام کو ایک آئینے کی مانند جناب نوازشریف کے روبرو رکھ رہے ہیں کہ انھیں اپنے اوپر آنے والا پندرہ برس پیشتر کا وہ اندوہناک وقت یاد رہے اور میاں صاحب ماضی کی غلطیاں دہرانے سے باز رہیں جن کی پاداش میں انھیں ابتلاء کے دن دیکھنا پڑے تھے، ایسے دن جنھیں وہ دوران اقتدار کی اپنی لاپرواہانہ اور لااُبالی زندگی میں کبھی تصور میں بھی نہ لائے ہوں گے۔ وگرنہ اللہ کی پکڑ کی کسے کیا خبر؟

Comments

Click here to post a comment