ہوم << درینہ کا پل اور سرگودھا - جنید الدین

درینہ کا پل اور سرگودھا - جنید الدین

ناولوں کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں اور ناول پڑھنے والوں کی بھی. میرے لیے ناول ایک تفریحی مقام کی سی حیثیت رکھتے ہیں یا ایک فلم کی جس کے اندر میں ایک خاموش کردار کا پارٹ ادا کرتا ہوں. یہ خاص موقع پر خاص کمبی نیشن کی بھی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جیسے بریانی کے ساتھ سوڈا واٹر اور بارش میں سموسے یا پکوڑے اور مذببی پروگرام کے بعد لنگر، بالکل اسی طرح اگر میں ڈاکٹر ژواگو نامی ناول نہ پڑھتا تو نمازجنازہ کو فرض کفایہ جان کر چھوڑ دیتا کہ کوئی اور بھی جا کر پڑھ لے تو ثواب مل جائے گا کیونکہ نوبل انعام یافتہ اس ناول کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے.
’’دائمی سکون! ‘‘
’’وہ یہ نوحہ پڑھتے ہوئے جا رہے تھے. کبھی راستے میں کوئی مسافر اس میں شامل ہو جاتا تو پوچھتا کہ کس کی میت ہے تو وہ جواب دیتے ڈاکٹر ژواگو کی. اور اسی طرح وہ قبرستان میں پہنچ گئے.‘‘
یا پھر میکسم گورکی کا ماں کہ جب کوئی انقلابی نوجوان مجھ سے ملتا ہے اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا خاتمہ کر کے انقلابی حکومت قائم کرنے کی بات کرتا ہے تو وہ یکدم زید و بکر سے پاویل ولاسوف کا روپ دھار لیتا ہے.
اور سفر کے دوران رابنسن کروزو میرے دماغ پہ سوار ہوجاتا ہے اور میری ہمت بندھاتا ہے کہ سفر کی دشواری میں کس طرح کا برتاؤ کیا جائے.
اسی طرح ناول موسمی بھی ہوتے ہیں جیسے کہ روسی ناول برف، گوبھی کا شوربہ، سماوار، اور چائے کی تلخی سمیٹے ہوتے ہیں تو افریقی مچھر، گرمی، یام کی شراب، بزرگوں کے قصے اور پرانی روایات سے مزین ہوتے ہیں. گرمیوں میں روسی اور سردیوں میں افریقی ناول انسان کو ساری دنیا سے اچاٹ کر کے آنے والے موسم کے سحر اور اس کی حدت میں مبتلا کر دیتے ہیں.
معذرت کہ مجھے انگریزی ادب کی کبھی سمجھ نہیں آئی اور نہ اس کے کرداروں نے کبھی مجھے مسحور کیا ہے. اس بات کو ایک انفرادی شخص کی جمالیاتی حس کی خرابی سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے. مگر اس سب کے باوجود ایک ناول ایسا ہے جس نے مجھے کبھی اپنے سحر سے نہیں نکلنے دیا، ہاں البتہ گورنمنٹ کالج میں گزرے چار سال میں، میں نے کسی کو اس کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا. اس سے مراد اگر ان سب کا ادب کی پرکھ نہ رکھنا ہے تو یہ فائدہ مند ہے کہ اگر ہمیں ادب کی پرکھ ہوگئی تو اردو ناول نگار تو بھوک سے مر جائیں گے کہ پھر کون ان کی کتابیں خریدے گا. یہ ناول بوسنیائی نوبل انعام یافتہ ناول نگار ’’آئیوآنڈرچ‘‘ کا ’’درینہ کا پل‘‘ ہے جو کہ سربیا کا سب سے عظیم ناول سمجھا جاتا ہے. یہ ناول سربیا پر عثمانی قبضہ اور اس کی چار سو سالہ سیاسی، سماجی، ثقافتی، ملی اور اقتصادی روایات پر مشتمل ہے. مختلف کردار اور ان کا پل کے ساتھ تال میل اس کو حرکت میں رکھتا ہے.
عثمانی حکمران جب کسی علاقے کو فتح کرتے تو وہاں کے خوبصورت اور ہونہار بچوں کو اٹھا لیتے، ان کی بہترین تربیت کرتے تاکہ وہ امور سلطنت چلا سکیں. ایسے ہی مشہور عثمانی وزیر جو کہ سرب تھا کو اٹھا لیا گیا، جب اس کی ماں اس کو بچانے کی خاطر آگے بڑھی تب تک اسے کشتی میں سوار کر کے لے جایا جا چکا تھا. اس نے سوچا کہ اگر وہ کسی بڑے عہدے پر پہنچ گیا تو ضرور ایک پل تعمیر کرے گا جس سے سلطنت کے لوگ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکیں، اور اس طرح اس پل کو تعمیر کیا گیا. پل کی تعمیر میں لوگوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، ظالم عابد آغا کے ہاتھوں اذیتیں سہیں اور بزرگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ پل کبھی تعمیر نہیں ہوگا کہ پانی کی دیوی ایسا نہیں چاہتی. بالآخر جب پل تعمیر ہوا تو بہت عرصہ بعد ان لوگوں کے چہروں پہ خوشی تھی، ایسی جیسی انسان کی آخری خواہش کے پورا ہونے پر ہوتی ہے کہ اب وہ آسانی سے مر سکتا ہے. بڑے عرصے بعد ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اتنا کہ ایک لڑکے کی موت زیادہ حلوہ کھا جانے کی وجہ سے ہوئی.
پل ان لوگوں کی سماجی و ثقافتی زندگی کا مرکز تھا. پل کے درمیان چبوترہ ’’کپجا‘‘ خوشی و غمی کے ہر موقع کا میزبان بن گیا. ہر روز لوگ وہاں پہ اکٹھے ہوتے، ایک دوسرے سے حال پوچھتے اور پھر اگلی رات تک علیحدہ ہوجاتے. وزگراڈ نامی یہ شہر جس کو باقی حصوں سے جوڑنے کے لیے پل بنایا گیا تھا، مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ مسکن تھا اور یہ پل ہی تھا جو ان سب کو آپس میں یکجا کیے ہوئے تھا. ان کی زندگی کا سارا مقصد پل کی رونق برقرار رکھنا تھا. اسی پل نےآسٹرو ہنگرین وار میں بھی ترکوں اور سربوں کو اکٹھا کیے رکھا اور پروپیگنڈے کے باوجود انہوں نے اس پل کے ساتھ جذباتی انسیت کی غرض سے دوسرے مذہب اور نسل والوں کو گھروں میں پناہ دی. یہ اتفاق، زندہ دلی اور روایت پرستی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوگئی یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے ناسور نے بموں سے اس پل اور اس کے تقدس کو اکھاڑ دیا مگر جسے اس عظیم ناول نگار نے امر کر دیا.
یہی روایات لاہور کا بھی خاصہ تھیں تب تک جب تک لوگوں کا تعارف نظریہ بقا سے نہیں ہوا تھا. اور لوگ پیسے کے نہیں بلکہ خلوص و چاہت کے رسیا تھے. یہ لاہور وہ تو نہیں کہ جس کے متعلق افسانے پڑھ کر اور قصے سن کر ہم جواں ہوئے ہیں. جن لوگوں کو زندہ دلان کہا جاتا تھا آج کوئی باہر والا ان سے دوستی تک کرنے کو تیار نظر نہیں آتا. گو کراچی جیسے گینگسٹرز گروہ نہیں مگر گلو بٹوں سے بھی تو انکار ممکن نہیں. میں خود عینی شاہد ہوں کہ اگست 2014ء میں جب عوامی تحریک کے کارکنوں کو محصور کیا گیا تھا تب ماڈل ٹاؤن کے کسی گھر نے ان کے لیے دیگیں نہیں چڑھائی تھیں اور نہ کوئی سبیل لگائی گئی تھی. ہاں مگر روایت لاہور سے نکلی تو سرگودھا پہنچ گئی، مگر کسے معلوم کہ اس شہر نے کوئی اورحان کمال نہیں جنا کہ جس نے اپنے ناولوں میں ادانہ جیسے ایک چھوٹے سے شہر کو امر کر دیا. کوئی اس کے بارے میں نہیں لکھے گا کہ منجن لاہور کے نام کا بکتا ہے، ایسے جیسے آج کل تثنیت اور لبرل ازم کا بک رہا ہے.
شاید ایسا واقعہ کبھی لاہور میں بھی ہوا ہو جیسا سرگودھا کہ ایک گاؤں میں ہوا تھا کہ لاہور کے چند طالب علم وہاں ایک شادی پر گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پڑھے لکھےتو درکنا کوئی سیدھا سادھا دیہاتی بھی کھانے کی طرف نہ لپکا، سارے مہمانوں نے کھانا اطمینان سے کھایا اور کسی کے بھی کپڑے خراب نہ ہوئے. اس دوران وہ جتنا عرصہ کالج میں اکٹھے رہے، ان لوگوں کی نفاست اور زندہ دلی پہ حیران ہوتے رہے، یا فوارہ چوک کا وہ علی نواز میلہ جسے کچھ لڑکوں نے نشئی سمجھ کر سڑک پار کروائی مگر وہ ایک بڑا زمیندار نکلا اور آج تک ہر ہفتہ انہیں اپنے پاس کھانے پہ بلاتا ہے، یا وہ رکشے والا غریب دیہاڑی دار جس نے میرے حسن ظن پہ اعتبار کر کے سو کا ادھار کرلیا کہ میرے پاس چھٹا نہ تھا اور جب دوبارہ کبھی ملا تو پیسے لوٹا دوں گا اور آج تک اس کا مقروض ہوں، یا وہ پولیس والے جو کبھی طالب علموں کو نہیں روکتے کہ وہ اس کیفیت کو جانتے ہیں جو ایک طالب علم چالان کروانے پر محسوس کرتا ہے. ایک دوست بتاتا ہے کہ یونیورسٹی کے دنوں میں اس نے کم و بیش دس مرتبہ کھانا بن بلائے باراتی بن کے کھایا کہ لوگ ندیدوں کی طرح دوسرے کی ٹوہ میں نہیں رہتے. سرگودھا والوں نے اتنی زندہ دلی کب سیکھی یا وہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اتنا ہے کہ ان دنوں سرگودھا سرگودھا ہے.