مقبوضہ جموں و کشمیر میں انڈین آرمی کا ظلم و ستم روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے تو دوسری طرف تمام کشمیری، بچے، بوڑھے، نوجوان، عورتیں، سبھی جرات و غیرت کی ایک ایسی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی. نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد پورے کشمیر میں جوش و جذبے کی ایک نئی لہر بیدار ہوئی ہے. وادی کی گلی کوچوں میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے، کشمیر بنےگا پاکستان.
آج پورے بھارت کو علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا ہے. کئی ریاستوں میں شورش جاری ہے، کشمیر میں صورتحال دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جہاں عوامی احتجاج سے گھبرا کر ہندو فوج بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے. ماضی میں چانکیہ کے بزدل چیلے براہمن نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سکھوں کو اشتعال دلا کر استعمال کیا، مگر آج یہی سکھ بھارت کے لیے ایک بار پھر بڑا خطرہ بننے جا رہے ہیں. خالصتان کی تحریک جون 1984ء کے بعد ایک بار پھر عروج پہ ہے. سکھوں کا علیحدہ وطن کا مطالبہ دہلی کے لیے ایک بار پھر درد سر بنتا دکھائی دیتا ہے. قائداعظم نےگیانی ہری سنگھ (جنہیں سکھوں میں خاص مقام حاصل تھا) سے ایک ملاقات میں پنجاب تقسیم نہ کرنےکی شرط پر انہیں پاکستان میں سکھوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کےساتھ یقین دلایا کہ وہ پاکستان میں آزادنہ طور پہ اپنے مذہبی معاملات ادا کرسکیں گے، اور اس سلسلے میں سکھ قوم کو کسی بھی قسم کی پریشانی یا رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. گیانی جی کے ساتھ آئے وفد کے ارکان نے بھی اس پہ آمادگی کا اظہارکیا مگر ماسٹر تارا سنگھ جو کانگریس کا آلہ کر بن اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ہندووں کی غلامی میں دھکیلنےکافیصلہ کر چکا تھا، نے اسے ماننے سے انکارکردیا، اور سکھوں کو مسلمانوں کے قتل عام پہ ابھارنا شروع کردیا. مگر 1948ء کے آغاز میں ہی سکھ قوم کو سمجھ آگئی تھی کہ وہ ماسٹر تارا سنگھ اور دوسرے سکھ راہنماوں کے غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں. پنجاب کو تقسیم کرکے ہندوستان کے ساتھ رہنا ان کی ایسی سیاسی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہیں 4 جون سے7 جون 1984ء کی صبح تک آٹھ ہزار بےگناہ سکھوں کے قتل عام کی صورت میں ادا کرنا پڑا. اگلے چند دنوں میں صرف امرتسر میں ہندو فوج کے ہاتھوں بارہ ہزار معصوم سکھ ماردیے گئے. اس کے علاوہ پورے ملک میں سینکڑوں سکھوں کو گلے میں ٹائر ڈال کر زندہ جلا دیا گیا، سینکڑوں سکھ عورتوں کی آبروریِزی کی گئی، بیسیوں گردوارے مسمار کردیے گئے، اور سب سے بڑھ کر انڈین آرمی نے سکھ مت کے متبرک ترین مقام دربار صاحب کے اندر اکال تخت پہ ٹینکوں کے ساتھ چڑھائی کردی، جس نے پوری سکھ کمیونٹی کو ہلا کررکھ دیا. گولڈن ٹمپل کے تقدس کی بھارتی فوج کے ہاتھوں پائمالی نے نہ صرف بھارت کا سیکولر چہرہ پوری دنیا کے سامنے ننگا کردیا، بلکہ بہت سے محب وطن بااثر سکھوں کو بھی یہ سوچنے پہ مجبور کردیا کہ ان کی یہاں کیا حیثیت ہے؟
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بھارتی فوج کے جس جنرل نے بنگالی مکتی باہنی کے غنڈوں کو تربیت دے کر پاکستان دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور جو انڈین فوج میں گوریلا جنگ کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جاتاتھا، جس نے 1971ء میں ہزاروں بےگناہ پاکستانی اور بنگالی کالی ماتا کے پجاریوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کروا دیے، یہی جنرل شوبیگ سنگھ اپنی قوم کے خلاف ہندو سامراج کے ناروا سلوک کی وجہ سے خالصتان کی پہلی مزاحمتی تحریک کا بانی اور کمانڈر بنا. جنرل سنگھ نے اسی کی دہائی کے آغاز میں ہزاروں سکھ نوجوانوں کو خفیہ مقامات پہ گوریلا تربیت دی، جنہوں نے آنے والے دنوں میں پورے بھارت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا. بالآخر جون 1984ء میں اپنے ساتھیوں اور قائد امریک سنگھ اور بھنڈرانوالے سمیت دربار صاحب (گولڈن ٹمپل) میں اپنی ہی ملٹری فورسز کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا. یہ بھارتی تاریخ کاوہ سیاہ ترین اور شرمناک ، دن ہے جس نے یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے روشن کر دی کہ ہندوستان میں مسلمان، عیسائی، یا سکھ اور دیگر کمیونٹیز کا کوئی مستقبل نہیں. یہاں کسی بھی اقلیت کا مذہب اور جان و مال محفوظ نہیں. چانکیائی سیاست کا حامل ہندو نیتا کسی دوسری قوم کا وجود اپنی رام بھومی پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں. بھارتی نیتائوں کی انتہا پسندی بڑی تیزی سے انہیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے. چائنہ اور پاکستان جیسے طاقتور ہمسائے ملکوں کی دشمنی اور اندرونی علیحدگی کی تحریکیں جلد ہی ہندوستان کی کمر توڑ کر رکھ دیں گی. خالصتان اور کشمیری حریت پسندوں کی قربانیوں کا ثمر اب آیا ہی چاہتا ہے. بھارت کا جنگی جنون، بےتحاشا دفاعی اخراجات، اقلیتوں پہ مظالم، اور دوسرے ممالک میں مداخلت عنقریب اسے لے ڈوبیں گے. ان شاءاللہ
تبصرہ لکھیے