ہوم << نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ - غلام نبی مدنی

نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ - غلام نبی مدنی

غلام نبی مدنی پروپیگنڈہ ایٹم بم سے زیادہ مہلک ہتھیار ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو فریب دے کر ان کے پختہ عقائد و نظریات کے بارے شک میں ڈالنا ہوتا ہے۔ دنیا میں آج سیکولرز کی طرف سے یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’جھوٹ کو اتنا اور بار بار پھیلاؤ کہ لوگ اسے قبول کر لیں‘‘ اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ ’’اگر تم اپنے مخالف کو قائل نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے الجھا دو، تا کہ اس کی یکسوئی برقرار نہ رہے۔‘‘
پروپیگنڈے کا عالمی چیمپئن استعمار ہے جس نے بڑی چالاکی سے دنیا کو محکوم اور غلام بنانے کے لیے ایکا کیا، پھر لوگوں کو مختلف گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم کر کے لسانیت، عصبیت اور پروپیگنڈے کی تحریک کو خوب بڑھکایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پروپیگنڈے کا زیادہ تر استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتاہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے لوگوں میں جھوٹ اور کچھ سچ ملا کر ایسا پھیلاتی ہیں کہ ہر آدمی جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتا ہے۔ اس وقت دنیا میں بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے مسلمان اور کافر دوبدو ایک دوسرے کے حریف بن کر لڑتے تھے، پھر استعمار نے دھوکہ دہی سے عالم اسلام پر دراندازیاں کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور اکیسویں صدی کے اس پرفتن دور میں استعمار نے’’پروپیگنڈے‘‘ کی صورت عالم اسلام کے خلاف پراکسی وار کا آغاز کیا ہے، جس میں مسلمانوں کو نہ صرف ان کے عقائد ونظریات کے بارے شک میں ڈالنا اور اسلام سے دور کرنا ہے بلکہ ان کو اپنا ہمنوا بنا کر اسلام پر عمل کرنے والے دیگر مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنا حتی کہ انہیں قتل کرنا بھی شامل ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ پروپیگنڈہ میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون کی آمد کے بعد اب میڈیا ہر انسان کی جیب میں آگیا ہے۔ جسے یوں کہنا بالکل بے جانہ ہوگا کہ اب پوری دنیا سمٹ کر انسان کی جیب میں آگئی ہے۔ یہی میڈیا ہے جو سیاست، کلچر، تہذیب وثقافت، مذہب اور سماج بنانے کے لیےگائیڈ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اتنا پاورفل ہے کہ اب کسی بھی خطے کی سیاست کو تبدیل کرسکتا ہے۔ عرب بہار میں تونس، لیبیا، مصر کا سیاسی منظرنامہ اسی میڈیا نے تبدیل کروایا۔ مختلف قوموں کے مختلف کلچر، اخلاقیات اور اقدار میں دراڑیں ڈالنے والا بھی یہی میڈیا ہے۔
پاکستانی میڈیا میں کس طرح پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ آپ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک سے لگاسکتے ہیں جس میں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہرگز نہیں تھا، بلکہ قائداعظم تو خود سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان بنانے کے حامی تھے۔ کبھی اس پروپیگنڈے کو یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ ریاست تو سیکولر ہوتی ہے۔اگرریاست کسی مذہب کو اپنالے تو ریاست میں بدامنی پھیل جائے۔‘‘
حیرت کی بات ہے کہ پچھلے 70 سالوں سے ہرکوئی یہ جانتا آ رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ تھا، انگریز جس نے مسلمانوں کی حکومت پر قبضہ کرکے پاکستان اور انڈیا کو آزاد کیا، وہ بھی یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں نے دو قومی نظریے یعنی اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا، پوری دنیا جانتی ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والی معاصر دنیا میں پاکستان ہی اول ریاست ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود میڈیا کے ذریعے نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا دی جاتی ہے، ٹاک شوز میں سیکولرز اور لبرلز کو اقلیتی نمائندوں کے ساتھ بٹھا کر نظریہ پاکستان پر بحث کروائی جاتی ہے، اخبارات جان بوجھ کر آزادی اظہار رائے کے نام پر نظریہ پاکستان کے خلاف کالم اور خبریں چھاپتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا کتنا اثر ہوا، اس کا اندازہ وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا راز سیکولر ریاست میں ہے۔
میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا اثر سوشل میڈیا پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی اب نظریہ پاکستان کے بارے بحث و مباحثے کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے، نظریہ پاکستان کے مخالف سیکولر اور لبرل تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ کم ازکم ان کے مقدمے کوسنجیدگی سے لیا جائے، اس پر بحث کی جائے تاکہ کم از کم وہ اسلام پسندوں کو اتنا کنفیوز کرسکیں کہ وہ نظریہ پاکستان کے بارے شک میں مبتلا ہو جائیں۔ تعجب بالائے تعجب ہے کہ پاکستان کے نظریے کے خلاف دن رات سازشیں کرنے والوں کے خلاف حکومت اور ادارے خاموش ہیں اور زبان تک نہیں کھولتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کے خلاف بولنے کا مطلب پاکستان کے وجود کا انکار کرنا ہے کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا کا مقدمہ ہی یہ تھا کہ اسلام ایک الگ دین ہے اور ہندومت الگ، مسلمان اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ہر لحاظ سے ہندئووں سے الگ ہیں۔
عوامی سطح پر اس پروپیگنڈے کامقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اللہ اور اس کے محبوب کی تعلیمات سے مضبوط تعلق قائم کرنا ہوگا، ہر دکھتی چیز پر اندھا ایمان لانے سے بچنا ہوگا اور نظریہ پاکستان کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ نظریہ پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانا ہوگا تاکہ کسی طرح وہ سماج میں انتشار اور خلفشار کا باعث نہ بن سکیں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی محاذ نہ بن سکے۔