ہوم << مولانا آزاد کی پیشین گوئی - شہیر شجاع

مولانا آزاد کی پیشین گوئی - شہیر شجاع

مولانا آزادؒ نے پاکستان کا مستقبل تو دور رس نگاہوں میں کشید کر لیا تھا مگر کیا ہندوستان وہی ہے جس کے لیے مولانا نے اپنی ساری زندگی تیاگ دی؟
جی ہاں یہ وہ نکتہ ہے جس پر کانگریس و مسلم لیگ جدا ہوئے۔ مسلم لیگ کا مطالبہ جدا ہوا اور تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسی سرزمین اور ایک ایسا خطہ دنیا کے نقشے میں ابھرا جس نے اس عَلم کو تھاما جس کی ٹھیکیداری عربوں کے پاس تھی مگر وہ کم ہمت ثابت ہوئے۔ صرف ترک تھے جنہوں نے جدوجہد جاری رکھی مگر ارض پاک کو جو جغرافیائی و نظریاتی کیفیت میسر آئی وہ سب میں ممتاز تھی۔ معمار اپنا کام کر کے اتنی جلد رخصت ہوگئے کہ ابھی زمین میں بویا گیا بیج پھوٹا بھی نہ تھا۔ اس کو سینچنے کا کام بدقسمتی سے کم عقل، کم فہم، کم ہمت اور وژن سے دور لوگوں نے اپنے کندھوں پر لیا۔ اس کے باوجود ارض پاک نے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ مسلسل چوٹ کھا کر بھی اپنے وجود کی اہمیت کو کم ہونے نہ دیا۔ ایسا ہو بھی کیسے؟ فطرت تو نہیں بدلتی، خواہ آپ کتنا بھی زور لگالیں۔ ایک طرف منفی عناصر تھے تو دوسری طرف بنیادی وجود کو مستحکم رکھنے کی جدوجہد بھی جاری تھی۔
پاکستانی جب سے ہر قسم کی آزمائشوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کہیں سیاسی ظلم ہے تو کہیں نظریاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر یہاں کے باسیوں کو مختلف افکار و نظریات میں الجھادیا گیا، خواہ موضوع مذہب ہو، سیاست ہو، ریاست ہو یا کچھ اور، اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ مملکت خداداد کے سب سے اہم ستون بھی یہ تین ہی ہیں جو سماج کو تشکیل دیتے ہیں اور فرد کو اجتماع کی تشکیل میں مددگار ہوتے ہیں۔ سیاست و مذہب فرد کے فکر کو چھیڑتا ہے۔ اگر تو مذہب و سیاست کے پیشرو قابل و عالم ہیں اور وہ اس میدان میں نیک نیتی و مکمل تیاری کے ساتھ موجود ہیں تو سماج کی فکری تشکیل میں فرد کو یکسو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بصورت دیگر مزید الجھائو کا باعث بنیں گے، اور یہ الجھائو کسی بھی صورت قابل تعریف سماج کی تعمیر کا باعث نہیں ہوسکتا۔
مولانا آزادؒ نے بھی پاکستان کے مستقبل کی بعینہ یہی تعریف کی تھی جو ہم جی رہے ہیں۔ مگر مسلم لیگ کا موقف بھی بالکل واضح تھا جس کی حقیقت کے طور پر آج کا بھارت ہمارے سامنے ہے ۔ ہم یہاں کسی بھی موقف کے اختیار کرنے والے پر تبرا نہیں کریں گے کیونکہ سیاست ہر انسان کی اپنی سوچ ہے۔ مولانا کو ہندوستان سے محبت تھی، وہ مستقبل میں ایک ایسا ہندوستان تصور کرتے تھے جہاں انسانوں کی حکومت ہو اور انسانیت پھلتی پھولتی ہو، امن و امان اور فکری و سیاسی ترقی ہو۔ جبکہ مسلم لیگ کے جہاندیدہ سیاستدانوں کو اس سوچ سے اختلاف تھا. وہ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح ایک وقت میں، ایک ایسے ہی سیاسی حل پر آمادہ بھی ہوگئے تھے مگر چند ہی روز میں کانگریسی لیڈر کی تقریر نے ان کو سجدہ سہو پر مجبور کردیا، جس کا اقرار مولانا اپنی کتاب میں خود کرتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’کاش میں کانگریس کی صدارت نہ چھوڑتا تو شاید آج ہندوستان دولخت بھی نہ ہوتا‘‘۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کی سیاسی بصیرت بہت خوب تھی۔ اس کے ساتھ ہی فکری مشقت ان کی زندگی۔ اگر وہ سیاستدان نہ ہوتے تو ایک بہترین مفکر اور ادیب و عالم کے طور پر آج مسلم امہ کا اثاثہ ہوتے۔ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ رہ جانے والی ان تمام ہستیوں کو ہندوستانی سمجھ کر اپنی تاریخ سے نکال دیا۔ مگر افسوس کہ ہندوستان نے بھی ان مسلمان رہنمائوں کے ساتھ یہی کیا حالانکہ وہ مسلمان رہنما آخر تک ہندوستانی رہے۔
دوسری طرف قائداعظم رحمہ اللہ نے ایک ایسی سرزمین کا خواب دیکھا جہاں دنیا کے سامنے ایک ایسا سیاسی و سماجی نظام کا تجربہ پیش کیا جائے جس کی اساس اسلام ہو۔ اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ جتنے بھی خود ساختہ نظام ہیں، ان میں انسانیت کی بہبود نہیں۔ یہ محض ریت کی دیوار ہیں۔ بہرحال کامیابی و ناکامی ہمارا موضوع نہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو سوائے ابتداء کے چند عشروں کے فکری سطح پر دونوں خطے نہایت ابتری کا شکار ہوئے ہیں۔ اہل سیاست نے تعمیر کے بجائے ہیجان کو فروغ دیا۔ اہل صحافت و اہل ادب نے ان موضوعات پر توجہ دی جو سماج کا موضوع تھے ہی نہیں۔ ان کی کوشش اہل سیاست اور اہل فکر پر مرکوز رہی جبکہ یہ دونوں طبقے بذات خود تدبیر و تعلیم، خدمت و تعلّم کے بجائے جنگ و جدل پر مصر رہے۔ جس نے عام آدمی کی تخلیقی و فکری ساخت کو متاثر کیا، وسائل کو راحت اور مسائل کو غم سمجھا۔ جس نے اس نہج پر لا کر سماج کو تحلیل کردیا کہ وہ اب یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ آزاد کیوں ہوئے تھے؟ ان کی آزادی کا مطلب کیا تھا؟ انگریز ہم پر حکمران تھا تو ہم نے کیونکر اس سے آزادی حاصل کی؟
اس کا جواب جو سب سے آسان فی الوقت نظر آتا ہے اور جو ہم نے ثابت کیا کہ ہم تو اپنی تعمیر کے اہل ہی نہیں تھے۔ ہر طرف ظلم و جور، بد امنی، قتل و غارت لوٹ کھسوٹ، عصمت دری اور باہمی دشمنی جیسے اوصاف کو ہم نے فروغ دیا۔ سماج نے ان تمام عناصر کو قبول کیا کیونکہ ان کی فکر صرف اور صرف وسائل کا تصرف رہ گیا ہے۔ اس سے آگے ان کی تربیت کا کوئی ایک بھی معمول نہیں نہ ہی کوئی ایسے ادارے وجود میں آسکے جو اذہان کو اپنا موضوع بنائیں، سماج کی تشکیل میں کردار ادا کریں۔ ہوا یہ کہ ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق بیڑا اٹھائے کھڑا ہوگیا، یہ بھی مایوسی کی آخری سطح ہے۔ جب عام آدمی اپنی استعداد کو خاطر جمع کرکے خدمت میں مصروف ہوجائے کہ یہ کام اب ہمیں خود کرنا ہے۔ سماج کو ریاست کی توجہ حاصل کرتے نہ جانے اور کتنا عرصہ بیت جائے۔ اس سے چند افراد کو تو راحت کے مواقع میسر آگئے مگر تصویر جوں کی توں ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ اور مولانا آزاد کے الفاظ اہل ادب بڑے کروفر سے دہرا رہے ہیں جو کل تک ان پر تبرا کرتے تھے۔ آج ان کے اذہان بھی وسائل کے تصرف کی جنگ سے پراگندہ ہیں۔
ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر آزاد ہو نہ پائے، خواہ ہندوستان ہو یا پاکستان ، دونوں آزاد مملکتیں اپنے معاشرے کو آزاد اقدار پر تشکیل دینے میں ناکام ہیں، اپنا گھر، اپنا وطن، اپنی زمین، اپنے اقدار محض جذبات تک محدود ہیں۔ ہماری اہلیت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اہل فکر کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ عوام کو سیاست کی تعلیم و ترغیب اس وقت فائدہ مند ہو جب ایک باشعور سماج تشکیل پاچکا ہو۔ اس معاشرے کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے، اس کی تربیت کی ضرورت ہے، اور یہ کام اہل علم اور اہل صحافت و ادب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment