ملحدین کے سوالات بڑے نازک ہوتے ہیں. ویسے میں سوچتا ہوں کہ ایک لحاظ سے ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ یہ لوگ ہمیں محض ایک پیدائشی مسلمان سے ایک شعوری مسلمان بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں، اور قرآن کی دعوتِ تدبر بھی یاد دلاتے رہتے ہیں. آج ہی میرے شعبے یعنی طب کے حوالے سے ایک بڑا ہی حساس سوال، ایک ملحد مصنف کی جانب سے آ کھڑا ہوا. سوچ کے متنوع نقائص پر ترتیب وار روشنی ڈالتے ہوئے وہ آ پہنچے ہیں ’’Omission Bias‘‘ پر. اسے آپ ’’خطا کا تعصب‘‘ کہہ سکتے ہیں مگر یہ اس کے مفہوم کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا. مراد اس سے یہ ہے کہ اس مخصوص سوچ کے تحت، درستگی کی جانب اقدامی کوشش سے پہلوتہی، غلطی کی جانب اقدام سے، برائی میں کمتر سمجھی جاتی ہے.
مثال کے طور پر آپ ایک پہاڑی پر دو اور لوگوں کے ہمراہ کھڑے ہیں. ان میں سے ایک کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ نیچے کھائی میں گر کر شدید زخمی ہو جاتا ہے مگر مرتا نہیں. آپ وائرلیس سے مدد کےلیے ہیلی کاپٹر بلا کر اس کی جان بچا سکتے ہیں لیکن آپ ایسا نہیں کرتے اور اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، اور ساتھ ہی دوسرے بندے کو آپ خود دھکا دے کر کھائی میں پھینک دیتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کیسز میں سے کس صورت میں آپ کا ضمیر آپ کو زیادہ ملامت کرے گا؟ مصنف کے مطابق دونوں اعمال ہی برابر کے مذموم ہیں لیکن پھر بھی لوگ خود دھکا دینے کو مدد نہ کرنے سے زیادہ بڑا جرم خیال کرتے ہیں. یعنی اصلاح کی خاطر عدم اقدام، فساد کی خاطر اقدام سے نسبتاً ہلکا سمجھا جاتا ہے. اسی کو ’’خطا کا تعصب‘‘ کہتے ہیں.
اب آئیے اگلے سوال پر:
آپ ادویات کی ریگولیٹری اتھارٹی کے انچارج ہیں. آپ کے سامنے کینسر کے علاج کے لیے ایک دوا منظوری کے لیے پیش کی جاتی ہے. خصوصیت اس کی یہ ہے کہ 20 فیصد لوگوں میں یہ فوری موت کا سبب بن سکتی ہے، البتہ 80 فیصد لوگ اس کی بدولت کینسر سے مکمل طور پر شفایاب ہو سکتے ہیں.
کیا آپ اس کی منظوری دے دیں گے؟
سوال بڑا حساس ہے. نامنظور کریں تو 100 فیصد لوگ سرطان سے مرتے ہیں. منظور کریں تو 20 فیصد آپ کی منظور کردہ دوا سے. اس پر مستزاد یہ کہ صورتحال اتنی سادہ بھی نہیں. فرض کریں آپ ’’خطا کے تعصب‘‘ سے اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں اور دوا کی منظوری دے دیتے ہیں. بہت خوب. لیکن پہلا ہی مریض دوا کے ہاتھوں چل بستا ہے. اب میڈیا اور عوام آپ کا کیا حال کریں گے؟ کیا آپ اپنی سیٹ پر برقرار رہ پائیں گے؟ مصنف کے مطابق یہ ایک اجتماعی سوچ کا نقص ہے اور اکثر آپ کے لیے اس سے بچ کر نکلنا محال ہوتا ہے.
چکرا تو نہیں گئے؟
ملین ڈالر کا سوال تو اب آ رہا ہے:
ایک مریض کینسر کی آخری سٹیج پر ہے اور شدید تکلیف میں ہے. تمام ڈاکٹر اسے لاعلاج قرار دے کر ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں. وہ تحریری اجازت نامہ لکھ کر دینے کو تیار ہے کہ مجھے ’’مارفین‘‘ کی مہلک ڈوز دے کر ہمیشہ کے لیے سلا دیا جائے، مگر قانوناً یہ جرم ہے.! مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے اس کی فائل پر موٹے موٹے حروف میں ’’DNR‘‘
لکھ رکھا ہے جو ’’Do Not Resuscitate‘‘ کا مخفف ہے. یعنی جب یہ مریض جانکنی کی کیفیت میں پہنچے تو اس کے دل اور سانس کو مصنوعی طور پر رواں رکھنے کے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش نہ کی جائے.
کیوں؟
انجکشن دے کر مارنا جرم، پر مرنے دینا جائز؟
آخر کیوں؟
اس کے جواب کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں. پہلے میں چاہوں گا کہ ان سوالات کے اٹھائے جانے سے داعی حضرات کے لیے جو سبق ہے اسے ’’بولڈ‘‘ (Bold)، ’’انڈر لائن‘‘(Underline) اور ’’اٹالیسائیز‘‘ (Italicize) کر کے سامنے لایا جائے:
جب آپ کوئی برائی ہوتی دیکھیں اور اسے روکنے کی کوئی کوشش زبان سے کریں نہ ہاتھ سے تو جان لیں کہ آپ ’’Omission Bias‘‘ کا شکار ہیں. اور اگر آپ دل سے بھی اسے برا نہیں سمجھ رہے تو یہ ایسا ہی ہے کہ گویا آپ خود اس برائی میں ملوث ہیں. تو پھر کیا فرماتے ہیں؟ کیا لاعلاج مریضوں کے لیے آسان موت کی آپشن (Euthanasia) کو قانوناً جائز قرار دے دیں؟
’’نہیں، ہرگز نہیں.‘‘
غور کریں تو یہاں مصنف نے بڑی خوبصورتی سے (یا شاید چالاکی سے) ’’قیاس مع الفارق‘‘ سے کام لیا ہے. آسان موت والی مثال اور پچھلی دو مثالوں میں حقیقتاً کوئی مماثلت نہیں. ’’Omission Bias‘‘ کے لیے شرط ہے کہ آپ ایک برے انجام کو روکنے پر قادر ہوں اور پھر اپنی مرضی سے اسے نہ روکنے کا فیصلہ کریں، جبکہ کینسر کی آخری سٹیج میں، جانکنی کے مراحل میں دنیا کا کوئی ڈاکٹر مریض کو مرنے سے بچانے پر قادر نہیں. اور اگر وقتی طور پہ مصنوعی طریقے سے اس کی دھڑکنوں اور سانسوں کو بحال کر بھی دیا جائے تو اس کی عارضی نوعیت کی بدولت دنیا کا کوئی’’عقلمند‘‘ اسے موت سے بچانا قرار نہیں دے سکتا.
تو یہاں پہنچتے پہنچتے مصنف صاحب خود کس ’’Bias‘‘ کا شکار ہو گئے ہیں، اس کا فیصلہ ہم انہی پر چھوڑتے ہیں اور خود ’’ڈاکٹر ڈیتھ‘‘ نہ بننے کا فیصلہ کر کے اپنے ’’اللہ جی‘‘ کا شکر ادا کرتے ہیں..
☺
بھت شاندار طریقے سے بیان کیا ھے